بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حاملہ خاتون روزہ رکھ سکتی ہے؟


سوال

اگر کسی کے حمل کا دوسرا  مہینہ ہو تو وہ روزے رکھ سکتی ہے؟

جواب

اگر حاملہ خاتون کو اپنی  یا اپنے بچے کی مضرت کا گمان غالب ہو، خواہ اس کا گمان واقع کے مطابق نکلے یا نہ نکے، بہر صورت اسے   روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، جس کی  بعد میں قضا کرنا ضروری ہوگی، البتہ اگر اسے روزہ رکھنے کی وجہ سے نقصان پہنچنے کا گمان غالب نہ ہو تو روزہ رکھنا لازم ہوگا، ترک کرنے کی اجازت نہ ہوگی،بہتر ہو گا ڈاکٹر عورت سے مشورہ کریں، عموماً اس مدت میں روزے کی وجہ سے سوائے متلی کےکوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔

صحیح البخاريمیں ہے:

" {أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ}. وقال عطاء: يفطر من المرض كله كما قال الله تعالى، وقال الحسن وإبراهيم في المرضع والحامل إذا خافتا على أنفسهما أو ولدهما تفطران ثم تقضيان."

( كتاب التفسير، سورة البقرة، باب قوله: أياما معدودات، ٦ / ٢٥، ط: السلطانية )

الفتاوي التتارخانيةمیں ہے:

" ٤٦٩٩: - م: وقال في الأصل: إذا خافت الحامل أو المرضع على أنفسهما أو على ولدهما جاز الفطر، وعليهما القضاء وفى الوقاية بلا فدية."

( كتاب الصوم، الفصل السابع في الأسباب المبيحة للفطر، ٣ / ٤٠٤، ط: مكتبة زكريا بدیوبند الهند )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں