بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حائضہ بالوں میں کنگھی کرسکتی ہے؟ / عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کا حکم


سوال

کیا حائضہ بالوں میں کنگھی لگا سکتی ہے؟ اور اگر کنگھی لگاتے وقت بال گر جائیں،  تو ان گرے ہوئے بالوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  حیض و نفاس نجاستِ حکمی ہیں، جس کی وجہ سے حائضہ وغیرہ  کا ظاہری جسم ناپاک نہیں ہوتا، نیز حائضہ کے لیے حالتِ حیض میں صرف نماز روزے کی ادائیگی، قرآن مجید کی تلاوت، مسجد میں داخلہ اور ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی ممانعت ہے، اس کے علاوہ وہ دنیا کے تمام اُمور سرانجام دے سکتی ہے اور صفائی ستھرائی اور زیب وزینت بھی اختیار کرسکتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں حائضہ کے لیے سر کے بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں،  نیز چوں کہ اجنبی مرد کے لیے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا  چاہیے، اگر دفنانا مشکل ہو تو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں  جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے ۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن معاذة أن امرأة سألت عائشة، قالت: ‌تختضب ‌الحائض، فقالت: «قد كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم ونحن نختضب، فلم يكن ينهانا عنه»."

(كتاب الطهارة، باب الحائض تختضب، ١/ ٢١٥، ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:"حضرت معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا حائضہ عورت مہندی لگا سکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (ماہواری کے ایام میں)مہندی لگایاکرتی تھیں، لیکن آپ ﷺ  ہمیں منع نہیں فرماتے تھے۔"

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"‌‌اختضاب الحائض: جمهور الفقهاء على جواز اختضاب الحائض لما ورد أن امرأة سألت عائشة - رضي الله عنها - قالت: ‌تختضب ‌الحائض؟ فقالت: قد كنا عند النبي - صلى الله عليه وسلم - ونحن نختضب فلم يكن ينهانا عنه،  ولما ورد أن نساء ابن عمر كن يختضبن وهن حيض."

(حرف الألف، اختضاب، اختضاب الحائض، ٣/ ٢٨٣، ط: دار السلاسل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وكل ‌عضو ‌لا ‌يجوز النظر إليه قبل الانفصال لا يجوز بعده) ولو بعد الموت كشعر عانة وشعر رأسها وعظم ذراع حرة ميتة.

وفي الرد: (قوله وشعر رأسها) الأولى تأخيره عما بعده ليكون نصا في عود الضمير إلى الحرة."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في النظر والمس، ٦/ ٣٧٢، ط: سعيد)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"زمانۂ جاہلیت اور خاص کر یہودیوں کے معاشرے میں عورت، ایامِ مخصوصہ میں بہت نجس چیز سمجھی جاتی تھی، اور اس کو ایک کمرے میں بند کردیتے تھے، نہ وہ کسی چیز کو ہاتھ لگاسکتی تھی، نہ کھانا پکاسکتی تھی اور نہ کسی سے مل سکتی تھی، لیکن اسلام کے معتدل نظام نے ایسی کوئی چیز باقی نہیں رکھی، سوائے روزہ نماز اور تلاوتِ کلام پاک کے، باقی تمام چیزیں اس کے لیے جائز کردیں  حتیٰ کہ وہ ذکر اللہ اور درود شریف اور دیگر دعائیں پڑھ سکتی ہے، اور وظائف سوائے قرآن کے کرسکتی ہے۔خاص ایام میں میں وظیفۂ زوجیت کی اجازت نہیں، نماز روزہ بھی نہیں کرسکتی، اس کے ذمہ روزہ کی قضاہے، نماز کی قضا نہیں۔"

(حیض ونفاس، ٣/ ١٣٧، ط: مکتبہ لدھیانوی)

ایک اور جگہ ہے:

"سوال:... جب عورت سر میں کنگھا کرتی ہے، تو عورتیں کہتی ہیں کہ سر کے بال پھینکنا نہیں چاہیے، ان کو اکھٹا کرکے قبرستان میں دبادینا چاہیے؟

جواب:... عورتوں کے سر کے بال بھی ستر میں داخل ہیں، اور جو بال کنگھی میں آجاتے ہیں ان کا دیکھنا بھی نامحرم کو جائز نہیں، اس لیے بالوں کو پھینکنا نہیں چاہیے، بلکہ کسی جگہ دبا دینا چاہیے۔"

(حیض ونفاس، ٣/ ١٤٧، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں