بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا غسل کے دوران کان کا سوراخ بند کر سکتے ہیں؟


سوال

میں ایک مسجد میں پیش امام ہوں، میری سماعت کمزور ہے۔ ابھی مجھے لگتا ہے کہ غسل کرتے وقت کان میں پانی کے قطرے جانے سے سماعت میں کمزوری آرہی ہے۔ (ممکن ہے اس کے علاوہ ضعف سماعت کی دیگر وجوہات بھی ہوں) ۔

ابھی پوچھنا یہ ہے کہ  کیا میں کان کے سوراخوں کو بند کرکے جنابت کا غسل کرسکتا ہوں یا نہیں؟

اگر ڈھکنوں کے لگانے سے کان کے اندر کا حصہ خشک رہا تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

فرض غسل کے دوران پورے جسم پر پانی پہنچانا ضروری ہے،  البتہ کان کے سوراخ کے اندر پانی پہنچانا ضروری نہیں، لہذا غسل کے دوران کان کے سوراخ میں روئی وغیرہ رکھ کر،  بند کر کے غسل کرنا جائز ہے،  البتہ جسم پر پانی بہانے کے بعد کان سے روئی نکال کر سوراخ کے بیرونی حصے پر انگلی تر  کر کے پھیر دے،  تاکہ کان کے سوراخوں کے بیرونی حصے تر ہو جائیں۔

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ  ١٣: کان اور ناف  میں بھی خیال کر کے پانی پہنچانا چاہیے، پانی نہ پہنچے گا غسل نہ ہو گا ۔"

( غسل کا بیان، ١ / ٧٢، ط: دار الاشاعت )

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ ٨:  اگر غسل کے بعد یاد آوے کے فلانی جگہ سوکھی رہ گئی تھی، تو پھر سے نہانا واجب نہیں بلکہ جہاں  سوکھا  رہ گیا تھا اسی کو دھو لے، لیکن فقط ہاتھ پھیر لینا کافی نہیں ہے، بلکہ تھوڑا پانی لے کر اس جگہ بہانا چاہیے۔ "

(بہشتی زیور، غسل کا بیان ( بتسہیل یسیر)، ١ / ٧١، ط: دار  الاشاعت )

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"ولو سال الدم إلى ما لان من الأنف أو إلى صماخ الأذن يكون حدثا لوجود خروج النجس، وهو انتقال الدم من الباطن إلى الظاهر."

( كتاب الطهارة، فصل بيان ما ينقض الوضوء، ١ / ٢٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلدا لما في - {فاطهروا} [المائدة: ٦]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي."

( كتاب الطهارة، فرض الغسل، ١ / ١٥٢، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101900

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں