بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا گھر میں پرندے رکھنے سے مصیبتیں دور ہوجاتی ہیں؟


سوال

پرندوں اور جانوروں کو اس نیت سے گھر میں رکھنا کہ یہ ہم پر آئی بیماری اور مصیبت اپنے اوپر لے لیں گے، جائز ہے یا نہیں یا یہ شرک ہے؟  کیوں کہ عامل حضرات جن کے گھر میں جادو یا اثرات ہوں تو ان کو چکور، فاختہ اور بطخ وغیرہ گھر میں رکھنے کو کہتے ہیں، اور وہ اگر گھر میں آنے کے دو تین دن بعد بیمار ہو جائیں یا مر جائیں، تو وہ عامل حضرات کہتے ہیں کہ انھوں نے تمہاری تکلیف اپنے اوپر لے لی ہے،  تو کیا یہ درست ہے یا شرکیہ عقائد ہیں؟ کیوں کہ  پھر ناواقف لوگ اس پر یقین کر لیتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی کہتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ فی نفسہ کوئی مخلوق بھی نفع یا نقصان پہنچانے  والی نہیں ہے، انسان کو جو خیر ملتی ہے یا مصیبت پہنچتی ہے، وہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہے، احاديثِ  مباركہ ميں اگرچہ بعض پرندوں اور  جانوروں كو باعثِ خير و بركت كہا گيا ہے، جیسے بكری اور مرغ، اسی طرح  جہاد  کی نیت سے پالا گیا گھوڑا بھی باعثِ  خیر  ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ جانور یا پرندے مصیبتیں ٹالنے والے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ معصوم بچوں، نیک لوگوں، یا بے زبان جانوروں وپرندوں کی وجہ سے بعض اوقات انسان پر اُس کے اعمال کے سبب آئی مصیبتوں وبلاؤں کو ٹال دیتے ہیں، جیسا کہ استسقاء (طلبِ باراں) کی نماز کے لیے جاتے ہوئے بچوں، بوڑھوں اور بے ضرر جانوروں کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم ہے، لیکن یہ چیزیں بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو ٹالنے یا بدلنے والی نہیں ہیں، بلکہ خیر و شر اللہ کی جانب سے ہے اور شر سے بچانے والی ذات بھی اللہ رب العزت کی ہے، خواہ بغیر کسی سبب کے بچائے یا دعا، صدقات اور نیک اعمال کے  وسیلے سے بچائے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس عقیدے کے ساتھ گھر میں پرندوں  یا جانوروں کو پالنا کہ یہ ہم پر آنے والی مصیبتوں کو ٹال دیں گے یا اپنے اوپر لے کر ہماری حفاظت کریں گے، جائز نہیں  ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔ البتہ مذکورہ عقیدہ رکھے بغیر ویسے ہی، یا گھر میں برکت کے حصول کے لیے  جانور یا پرندے پالنا  جائز ہے، بشرط یہ کہ ان کے دانہ، پانی  اور  صفائی ستھرائی کا بروقت انتظام کیا جائے اور  ان کو بھوکا پیاسا نہ رکھا جائے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ، نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه".

(ج:5:ص:2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت)

فتح الباری میں ہے:

"إن في الحديث دلالةً على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي صلى الله عليه وسلم".

(ج:10، ص:584، ط:دار المعرفة بيروت)

مسند احمدمیں ہے:

"عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "الخيل ‌معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة."

(ج:10،ص:51،ص:مؤسسة الرسالة)

وفيه أىضاً:

"عن أم هانئ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :اتخذوا ‌الغنم، فإن فيها بركة."

(ج:45،ص:379،ط:مؤسسة الرسالة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"في النهاية: ‌الطيرة بكسر الطاء وفتح الياء وقد تسكن، هي التشاؤم بالشيء وهي مصدر تطير طيرة، كما تقول: تخير خيرة ولم يجئ من المصادر غيرهما هكذا قيل، وأصل التطير التفاؤل بالطير، واستعمل لكل ما يتفاءل به ويتشاءم، وقد كانوا في الجاهلية يتطيرون بالصيد كالطير والظبي، فيتيمنون بالسوانح ويتشاءمون بالبوارح، والبوارح على ما في القاموس من الصيد ما مر من ميامنك إلى مياسرك والسوانح ضدها، وكان ذلك يصدهم عن مقاصدهم ويمنعهم عن السير إلى مطالبهم فنفاه الشرع وأبطله ونهاهم عنه، وأخبر أنه لا تأثير له حيث قال:  «اللهم لا طير إلا طيرك، ولا خير إلا خيرك، ولا إله غيرك» ،  «اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت ولا يذهب بالسيئات إلا أنت»."

(كتاب الصلاة، باب ما لا يجوز من العمل في الصلاة وما يباح منه، ٢/ ٧٧٧، ط: دارالفكر)

فتح المجید میں ہے:

"عن أنس قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: "لاعدوى ولا طيرة، ويعجبني الفأل، قالوا: وما الفأل؟ قال: الكلمة الطيبة".

قوله: "ويعجبني الفأل" قال أبو السعادات: الفأل، مهموز فيما يسر ويسوء، والطيرة لا تكون إلا فيما يسوء، وربما استعملت فيما يسر. يقال: تفاءلت بكذا وتفاولت، على التحقيق والقلب، وقد أولع الناس بترك الهمزة تخفيفا، وإنما أحب الفأل؛ لأن الناس إذا أمّلوا فائدة الله ورجوا عائدته عند كل سبب ضعيف أو قوي فهم على خير، وإذا قطعوا آمالهم ورجاءهم من الله تعالى كان ذلك من الشر. وأما الطيرة فإن فيها سوء الظن بالله وتوقع البلاء. والتفاؤل: أن يكون رجل مريض فيسمع آخر يقول: يا سالم، أو يكون طالب ضالة فيسمع آخر يقول: يا واجد، فيقع في ظنه أنه يبرأ من مرضه ويجد ضالته. ومنه الحديث: "قيل يا رسول الله ما الفأل؟ قال: الكلمة الطيبة".

قوله: "قالوا: وما الفأل؟ قال: الكلمة الطيبة". بيّن صلي الله عليه وسلم أن الفأل يعجبه، فدل على أنه ليس من الطيرة المنهي عنها.قال ابن القيم -رحمه الله تعالى-: ليس في الإعجاب بالفأل ومحبته شيء من الشرك، بل ذلك إبانة عن مقتضى الطبيعة وموجب الفطرة الإنسانية التي تميل إلى ما يوافقها ويلائمها ... ولأبي داود بسند صحيح عن عقبة بن عامر قال: " ذكرت الطيرة عند رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال: أحسنها الفأل، ولا ترد مسلما، فإذا رأى أحدكم ما يكره فليقل: اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت، ولا يدفع السيئات إلا أنت، ولا حول ولا قوة إلا بك."

(باب ماجاء فی التطیر، ص:٣١١، ط:القاهرة، مصر)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں