بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا غیر مسلم سے سود لینا جائز ہے؟


سوال

 ایک آدمی کپڑے کا کاروبار کرتا ہے اور غیر مسلموں کو کپڑے بیچتا ہے، اکثر اس کے کسٹمر غیر مسلم ہے ، کپڑے کی جو بیع ہوتی ہے ادھاری پر چلتی ہے ، غیر مسلم حضرات ایک مہینے دو مہینے میں رقم ادا نہیں کرتے ،   ایک یا  دو مہینے کی مدت تاخیر کرنے پر پانچ فیصد دس فیصد غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے؟ یہ سود کی رقم بعد میں غریبوں پر خرچ کرنا درست ہے؟  یا دوسری صورت یہ ہو کہ غیر مسلمین سے بطورِ سود رقم لے کر بعد میں ھدیۃً یا کسی اور طریقے سے انہی کو واپس کر دی جائے؟ لیکن دوسری صورت اپنانے میں یہ مسئلہ ہے کہ بطور سود جو رقم حاصل ہوگی وہ اچھی خاصی بڑی رقم ہوتی ہے ، بائع ان غیر مسلمین کو وہ دینا گوارہ نہیں کرتے، اس لیے حضرت والا سے مودبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلے میں کوئی حیلہ یا کوئی ایسی متبادل صورت کی طرف رہنمائی ہو کہ جس سے بائع کو نقصان نہ اٹھانا پڑے ، یا شروع ہی سے بیع کی کوئی ایسی شکل ہو جس میں بائع کے لیے تاخیر کی وجہ سے زائد رقم لینے کی گنجائش ہو ، اس لیے کہ یہاں گجرات ،سورت میں کپڑا مارکیٹ میں صورت کارآمد اور مروج ہے اور تاخیر پر سود لینا ایک مجبوری ہے، اس لیے کہ غیر مسلم حضرات یہ جانتے ہوئے کہ مسلمان سود نہیں لیتے عمدا ًتاخیر سے ثمن ادا کرتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین نصِ قرآن واحادیثِ مبارکہ کی رو سے حرام ہے،  اسلام میں جس طرح سود دیناحرام و ناجائز ہے، اسی طرح سود لینابھی حرام و ناجائز ہے ، احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں،لہٰذا مسلمان خواہ دار الحرب میں ہو یا دار الاسلام میں،  سودی معاملہ مسلمان سے کرے یا غیر مسلم سے،  ہر حال میں ناجائز وحرام ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں غیر مسلموں سے  ایک یا  دو مہینے کی مدت تاخیر کرنے پر پانچ یا دس فیصد سود لینا جائز  نہیں ہے،چاہے اس رقم کو ہدیہ یا غرباء میں تقسیم کرنے ہی کی نیت کیوں نہ ہو، البتہ  اگر پہلے سودی معاملہ کیا گیا ہو اور رقم آگئی ہو تو  اگر کسی فرد سے لی ہو او وہ معلوم بھی ہو، تو اس کو لوٹانا شرعاً ضروری ہوگا، اور اگر اس شخص تک رقم پہنچانا دشوار ہو یا وہ معلوم نہ ہو ،تو کو بلا نیتِ ثواب سودی رقم کو  صدقہ کردے اور اپنے فعل پر توبہ واستغفار کرے۔

نیز اگر  کسٹمر سے ثمن كی وصوليابی ميں تاخیر کی وجہ سے دشواری پیش آرہی ہو، تو بائع  کو چاہیےکہ ادھار کی صورت میں اپنے مال کی قیمت بڑھاکر فروخت کرے اور جس قیمت پر فروخت کرے وہی قیمت وصول کرنا جائز ہوگا،تاخیر کی وجہ سے اس پر جرمانہ وصول کرنا ناجائز ہوگا۔

قرآنِ کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے :

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔ [البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:1219،3،ط:داراحیاءالتراث العربی)

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والےپر، سود کھلانے والے پر، سودی معاملہ کے لکھنے والے پر اور سودی معاملہ میں گواہ بننے والوں پر اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب (سود کے گناہ میں )برابر ہیں۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «اجتنبوا السبع الموبقات» قالوا: يا رسول الله، وما هن؟ قال: «الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات»."

(صحيح البخاري 8/ 175 ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:" حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرامنے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کون سے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔"

اعلاء السنن میں ہے:

"ولو سلمنا جواز الربا بین المسلم والحربی فی الہند،فلا ریب ان جانب احتیاط والتوقی عنہ اولیٰ واحریٰ."

(کتاب البیوع، ابواب بیوع الربا،ج:14،ص:368،ط:ادارۃ القرآن کراچی)

معارف السنن شرحِ جامع الترمذی میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ...قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، مسئلۃ فاقد الطهرین،  ج:1، ص:34، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

'والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه'.

(کتاب الحظر والاباحة،مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، ج:5،ص:55،ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

’’وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘.

(كتاب الحدود، باب التعذير،ج:4، ص:61-62،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(‌وصح ‌بثمن حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع."

(كتاب البيوع،ج:4،ص:531،ط:سعيد)

بحوث في القضايا الفقهية المعاصرة"میں ہے:

"أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثون، فقد أجازوا البيع المؤجل بأكثر من سعر النقد، بشرط أن يبت العاقدان بأنه بيع مؤجل بأجل معلوم، وبثمن متفق عيه عند العقد."

(أحكام البيع بالتقسيط،ص:12،ط:دار القلم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں