کیا فطرانہ کی رقم مسجد کی تعمیر میں دے سکتے ہیں؟
صدقہ الفطر کا مصرف وہی ہے جو زکات کا مصرف ہے، زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے مسجد کی تعمیر وغیرہ پر صدقۂ فطر کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ باقی نفلی صدقات وعطیات تعمیراتی کاموں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں، اور ان سے مسجد کی ضرورت کی اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔
"فتاوی عالمگیری" میں ہے:
"لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، و لايقضى بها دين الميت كذا في التبيين".
( کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ج:1،ص:188، ط: رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے :
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)
(قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي
(کتاب الزکاۃ ،باب المصرف ،ج:2،ص:334،ط، دار الفکربیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102127
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن