اگر ایک شخص اپنی زندگی میں ہی 10 کنال زمین اپنے بیٹے کے نام کر دیتا ہے، اس شخص کا 1 بیٹا اور 4 بیٹیاں ہیں، وہ شخص فوت ہو جاتا ہے، اب ترکہ کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ فوت ہونے سے پہلے اس شخص نے زمین اپنے بیٹے کے نام کر دی تھی ،اب بھائی کس طرح سے اپنی بہنوں کا حصہ نکالے گا؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم (شخص)نے مذکورہ زمین اپنی زندگی میں فقط بیٹے کے نام کی تھی مکمل قبضہ ،تصرف اور اپنے استعمال سے فارغ کر کے بیٹے کے حوالے نہیں کی تھی ،تو اس طرح فقط نام کرنے سے بیٹا اس زمین کا شرعاً مالک نہیں بنا بلکہ یہ زمین مرحوم کی زندگی میں اسی کی ملکیت میں رہی ،اور اب اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور سب بیٹیوں میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو گی ۔
مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں،پھر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی کل ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے، پھر اس کے بعد باقی تمام متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو 6 حصوں میں تقسیم کر کے 2 حصے بیٹے کو جب کہ ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا ۔
صورتِ تقسیم یہ ہے :
میت (مذکورہ شخص)مسئلہ :6
بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی 100 روپے میں سے 33.333روپے مرحوم کے بیٹے کو ،جب کہ 16.666 ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لا يقسم ولا يبقى منتفعا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".
(كتاب الهبة،الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،ج:4، ص:376، ط:دارالفكر)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"ولایتمّ حکم الھبة الّا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبی و الولد اذا کان بالغا ،ھٰکذا فی محیط البرھانی."
( کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوزمن الھبة و فیما لا یجوز، ج:4، ص:377، ط: رشیدیة)
فتاویٰ التتار خانیہ میں ہے:
"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
(کتاب الهبة، فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه،ج: 14 ،ص: 431، ط زکریا، دیوبند، دہلی)
فتاوی شامی میں ہے :
"لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا تكون هبة."
(كتاب الهبة ،ج:6 ،ص:689 ،ط:سعيد)
البحر الرائق میں ہے :
"لو قال جعلته باسمك لا يكون هبة ولهذا قال في الخلاصة لو غرس لابنه كرما إن قال جعلته لابني تكون هبة وإن قال باسم ابني لا تكون هبة."
(كتاب الهبة ،مؤنة رد الوديعة علي المالك ،ج:7 ،ص:285 ،ط:دارالكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505100929
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن