بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا فلسطین میں ظلم کے خلاف نکالی جانے والی احتجاجی ریلیوں / جلوسوں میں خواتین کی شرکت جائز ہے؟


سوال

فلسطین کے لیے جو احتجاجی جلوس ہورہے ہیں، اُن میں عورتوں کا جانا جائز ہے، اگر پردے کی پابندی کے ساتھ جائیں تو؟

جواب

فلسطین کے مسلمانوں پر جو مظالم ہورہے ہیں، اس پر یقیناً ہر مسلمان کا دل غمگین اور افسردہ ہے، اور اسلامی اخوت وحمیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی بساط کے مطابق اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کرے، خواہ مالی تعاون کے ذریعہ ہو، جانی تعاون کی صورت میں ہو، یا دعاؤں اور استغفار کی شکل میں ہو، یا ان سے ہمدردی ویک جہتی کے اظہار کے ذریعہ ہو۔

تاہم اس مقصد کے لیے جو احتجاجی جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، وہ خواتین کے لیے شرعی یا طبعی ضروریات میں سے نہیں ہیں، اس لیے ان میں مسلمان خواتین کا شریک ہونا (خواہ پردے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو) جائز نہیں ہے، خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر  مظلوم مسلمانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں، نفلی روزے اور نمازیں پڑھ کر اُن کی نصرت اور ظلم سے چھٹکارے کی دعائیں مانگیں، اور حسبِ استطاعت نفلی صدقہ دیں۔

قرآن کریم میں ہے:

"{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33]"

"ترجمہ: اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن)"

’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع  رحمہ اللہ‘‘  میں ہے:

"والثاني: قوله تعالى: {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} ... فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ... فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالها بالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع."

(۳ /۳۱۷ – ۳۱۹، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عمرو بن عاصم قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن مورق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، ‌فإذا ‌خرجت ‌استشرفها الشيطان». هذا حديث حسن صحيح غريب."

(أبواب الرضاع، باب، ٣/ ٤٦٨، ط: مكتبة مصطفى البابي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم."

 (كتاب النكاح، باب المهر، ٣/ ١٤٦، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں