بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا فلاحی کام صرف نیت وارادہ سے واجب ہوجائے گا؟


سوال

اب سے پانچ مہینہ پہلے میری اپنی بیوی سے طلاق ہو گئی تھی ، اس کے بعد میں نے سوچا تھا کہ اب دوبارہ شادی نہیں کروں گا، بلکہ  اپنی باقی زندگی میں فلاحی کام کروں گا، یتیم  اور مسکین بچوں کے لیے فاونڈیشن وغیرہ بناؤں گا، لیکن اسی دوران مجھے خیالات آنے لگے کہ  مجھے اس کا آخرت میں کوئی اجر نہیں ملے گا؛ کیوں کہ میں یہ سب کچھ  اس لیے  کر رہا ہوں؛ تاکہ مصروف رہوں اور دنیاوی زندگی اچھی گزرے، ان خیالات سے تنگ آ کر میں نے اپنے آپ سے پکا وعدہ کیا کہ اگر میں نے کبھی شادی کر بھی لی  تب بھی یہ کام اسی طرح جاری رکھوں گا؛ تاکہ جو خیالات آ رہے ہیں وہ ختم ہو جائیں اور جو ارادہ میں نے شادی کے بعد کرنے کا کیا تھا وہ پختہ رہے،  جس طرح اپنے آپ سے یا اللہ پاک کی ذات سے اپنے دل میں عہد کیا جاتا ہے، اب میں شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے اب یہ خیالات آ رہے ہیں کہ شادی کے بعد یہ کام کرنے کی میں نے جو نیت یا عہد  کیا تھا، اس میں میں اس لگن سے کام نہیں کر سکوں گا؛  کیوں کہ شادی کے بعد بیوی بچوں کے اخراجات بھی ہوں گے اور بیوی بچوں کی دیگر ذمہ داریاں بھی ہوں گی۔ 

راہ نمائی فرما دیں کہ اس طرح نیت یا عہد  کرنے سے اب مجھ پر یہ فلاحی  کام کرنا واجب ہو گئے ہیں یا شادی کے بعد حسبِ استطاعت جتنا ہو سکے، اتناکرتا رہوں کافی ہے؟   شادی کے بعد یہ کام کرنے کی میں نے صرف نیت اور پختہ عہد  کیا تھا دل میں اللہ پاک کو مخاطب کر کے ، کوئی منت وغیرہ نہیں مانگی تھی۔ 

جواب

مذکورہ صورت میں آپ شادی کے بعد اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے فلاحی کام کرتے رہیں، اتنا کافی ہے، چوں کہ آپ نے منت یا نذر نہیں مانی؛ اس لیے واجب نہیں، لیکن نیک کام کرکے ایک پختہ ارادہ کیا ہے، اس لیے حتی الوسع جتنا ہوسکے کرتے رہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں