بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ایک دن میں قرآن ختم کرنا ادب کے خلاف ہے؟


سوال

 اکثر لوگوں سے ، اماموں سے ، صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ رات کو عبادت شروع کی ہے اور فجر سے پہلے قرآن ختم کر دیتے تھے، کیا یہ قرآن کے ادب کے خلاف نہیں؟ کیوں کہ اتنے کم وقت میں کیسے سکون اور اچھے انداز میں تلاوت کر سکتےہیں؟  میں نے پڑھا ہے کہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی چیز پر اس قدر کان نہیں دھرا ( توجہ سے نہیں سنا) جتنا کسی خوش آواز نبی کی آواز پر کان دھرا جس نے خوش الحانی سے قرآن پڑھا"،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بیان ہی سے ایک اور فرمان نبوی یوں مروی ہےکہ جو قرآن کی خوش کن آواز سے تلاوت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں،سیدنا انس رضی اللہ عنہ  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارے میں پوچھا گیا ،تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ سلم کھینچ کر پڑھتے تھے، پھر انھوں نے "بسم الله الرحمن الرحيم"پڑھ کر بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم"بسم اللہ" کو لمبا کر کے پڑھتے ، پھر "الرحمن" کو، پھر"الرحيم"کو کھینچ کر پڑھتے تھے ،قرآنِ کریم میں ہے"وَرَتِّلِ الْقُرْآن ترتيلا" قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے،ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے  فرمایا : " قرآن مجید کی تلاوت مہینے میں ( مکمل ) کیاکرو  ، صحابی نے عرض کیا : میں ( اس سے زیادہ کی ) قوت پاتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بیس راتوں میں پڑھ لیا کرو ۔ " میں نے عرض کی : میں (اس سے زیادہ کی ) قوت پاتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سات دنوں میں پڑھ لیا کرو " اور اس سے زیادہ ( قراءت ) مت کرنا"۔

جواب

 تکمیلِ قرآنِ کریم کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں ہے،اگر کوئی شخص تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے ایک رات یا ایک رکعت میں یا تین دن سے کم میں قرآنِ کریم مکمل پڑھ لے تو اسے ممنوع نہیں کہا جائے گا،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا احادیث کے باوجود امت کے اَکابرین سے بکثرت منقول ہے کہ  ایک دن یا ایک رکعت میں قرآنِ کریم کا ختم فرمایا کرتے تھے،علامہ عینی ؒعمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں بعض سلفِ صالحین کا تعامل ذکر کیا ہے کہ  حضرت عثمان، حضرت تمیم اور حضرت معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہم ایک رکعت یا ایک رات میں قرآن ختم کرتے،علامہ عینی کے ان صحابہ کرام کا تعامل ذکر کرنے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے  کہ امت کے ان اکابر کا عمل حدیث کے خلاف تھا، کیوں کہ یہ حضرات تو سنتِ نبویہ پر عمل کے حریص تھے،نیزقرآنِ کریم کوختم کرنے  کی مدت کے متعلق مختلف روایات منقول ہیں،بعض روایات میں تین دن سے کم میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی ممانعت آئی ہے، بعض میں سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کا ذکر ہے،بعض روایتوں میں ایک مہینہ اور بعض میں بیس دن کا بھی ذکر ہے،چنانچہ علامہ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ان روایات کے متعلق فرمایا کہ روایات کا اختلاف لوگوں کے حالات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے،یعنی  قرآن کی تکمیل ہر شخص اپنے قوت اور نشاط کے اعتبار سے کرے، اسی طرح علامہ عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں  کہ ان روایات کا اختلاف الگ الگ مخاطبین کے لحاظ سے ہے"، امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ وہ حضرات تھے جواس مختصر وقت میں ختم کرنے کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکتے تھے، لہذا جو بھی ایسی قدرت پائے اس کے لیے  اتنے عرصہ میں قرآن ختم کرنا قابلِ ملامت نہیں۔

"وهذا نادر جداً. فهذا وأمثاله من الصحيح عن السلف محمول إما على أنه ما بلغهم في ذلك حديث مما تقدم، أو أنهم كانوا يفهمون ويتفكرون فيما يقرؤونه مع هذه السرعة، والله أعلم."

(تفسير ابن كثير،مقدمة ابن كثير،ج:1،ص:85،ط:دار الطيبة)

لہذا اگر قرآن ِ کریم کا ختم ایک دن یا اس سے کم میں تلاوت کے آداب کی رعایت رکھتے ہوئےکیا جائے تو جائز ہے اور قرآن ِ کریم کے ادب کے خلاف نہیں ہے۔

عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"قوله: (ولا تزد على ذلك) أي: على سبع قال الكرماني. مقتضى لا تزد أن لا تجوز الزيادة. قلت: لعل ذلك بالنظر إلى المخاطب، خاطبه لضعفه وعجزه. أو أن النهي ليس للتحريم، وكان أبي بن كعب يختمه في ثمان. وكان الأسود يختمه في ست، وعلقمة في خمس، وروي عن معاذ بن جبل، وكانت طائفة تقرأ القرآن كله في ليلة أو ركعة. وروي ذلك عن عثمان بن عفان وتميم الداري. وكان سليم يختك القرآن في ليلة ثلاث مرات، ذكر ذلك أبو عبيد. وقال صاحب التوضيح: أكثر ما بلغنا، قراءة ثمان ختمات في اليوم والليلة، وقال السلمي: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات وبالليل أربع ختمات."

(كتاب فضائل القرآن،باب في كم يقرأ القرآن وقول الله تعالى فاقرءوا ما تيسر منه،ج:20،ص:60،ط:دار الفكر)ْ

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وثبت عن كثير من السلف إنهم قرؤوا القرآن في دون ذلك قال النووي والاختيار أن ذلك يختلف بالأشخاص فمن كان من أهل الفهم وتدقيق الفكر استحب له أن يقتصر على القدر الذي لا يختل به المقصود من التدبر واستخراج المعاني وكذا من كان له شغل بالعلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين العامة يستحب له أن يقتصر منه على القدر الذي لا يخل بما هو فيه ومن لم يكن كذلك فالأولى له الاستكثار ما أمكنه من غير خروج إلى الملل ولا يقرؤه هذرمة والله أعلم۔۔۔وكأن النهي عن الزيادة ليس على التحريم كما أن الأمر في جميع ذلك ليس للوجوب وعرف ذلك من قرائن الحال التي أرشد إليها السياق وهو النظر إلى عجزه عن سوى ذلك في الحال أو في المآل وأغرب بعض الظاهرية فقال يحرم أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث وقال النووي أكثر العلماء على أنه لا تقدير في ذلك وإنما هو بحسب النشاط والقوة فعلى هذا يختلف باختلاف الأحوال والأشخاص والله أعلم."

)كتاب فضائل القرآن،باب في كم يقرأ القرآن وقول الله تعالى فاقرءوا ما تيسر منه،ج:9،ص:97،ط:دار المعرفة)

شرح النووی میں ہے:

"(واقرأ القرآن في كل شهر ثم قال ‌في ‌كل ‌عشرين ثم قال في كل سبع ولا تزد) هذا من نحو ما سبق من الإرشاد إلى الاقتصاد في العبادة والإرشاد إلى تدبر القرآن وقد كانت للسلف عادات مختلفة فيما يقرؤون كل يوم بحسب أحوالهم وأفهامهم ووظائفهم فكان بعضهم يختم القرآن في كل شهر وبعضهم في عشرين يوما وبعضهم في عشرة أيام وبعضهم أو أكثرهم في سبعة وكثير منهم في ثلاثة وكثير في كل يوم وليلة وبعضهم في كل ليلة وبعضهم في اليوم والليلة ثلاث ختمات وبعضهم ثمان ختمات وهو أكثر ما بلغنا وقد أوضحت هذا كله مضافا إلى فاعليه وناقليه في كتاب آداب القراء مع جمل من نفائس تتعلق بذلك والمختار أنه يستكثر منه ما يمكنه الدوام عليه ولا يعتاد إلا ما يغلب على ظنه الدوام عليه في حال نشاطه وغيره هذا إذا لم تكن له وظائف عامة أو خاصة يتعطل بإكثار القرآن عنها فإن كانت له وظيفة عامة كولاية وتعليم ونحو ذلك فليوظف لنفسه قراءة يمكنه المحافظة عليها مع نشاطه وغيره من غير إخلال بشيء من كمال تلك الوظيفة وعلى هذا يحمل ما جاء عن السلف والله أعلم."

(باب النهي عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حقا،ج:8،ص:38،ط:دار احياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں