بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عید کی نماز تنہا پڑھ سکتے ہیں؟


سوال

 میرا دوست باہر  ملک کام کرنے گیا ہے، جہاں  لاک ڈاؤن کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے اورآس پاس میں نہ مسجد ہے اور نہ کوئی اور مسلمان ہے،  تن تنہا ہے،  تو اس حالت میں تنہا نمازعید الفطر ادا کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

عید کی نماز کے لیے چوں کہ جماعت شرط ہے، اور عید کی نماز میں جماعت کے لیے امام کے علاوہ کم از کم ایک مرد ہونا ضروری ہے، لہذا انفرادی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے،  پس مسئولہ صورت میں آپ کا مذکورہ دوست اگر چاہے تو عید کے دن اشراق کے بعد زائد تکبیرات کے بغیر چار رکعات ایک سلام کے ساتھ  بطور نفل پڑھ لے، اور سورۂ اعلی، سورۂ ضحی، سورۂ الم نشرح اور سورۂ و التین یاد ہوں تو پہلی دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد پڑھ لے، اور اگر یہ سورتیں یاد نہ ہوں تو کوئی بھی سورت پڑھ سکتا ہے، اور اگر دو رکعات پڑھنا چاہے تو دو بھی پڑھ سکتا ہے۔

النهر الفائق شرح كز الدقائق  میں ہے:

"نعم بقي أن يقال: من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام جماعة، فكيف يصح أن يقال: إن شروطه الجمعة. وهذا كله قول الإمام، وقالا: هو على كل من يصلي المكتوبة؛ لأنه تبع لها. والفتوى على قولهما في هذا أيضًا كما في (السراج)". ( باب صلاة العيدين، ١ / ٣٧٣، دار الكتب العلمية)

إعلاء السنن میں ہے:

"عن الشعبي رحمه الله تعالي، قال: قال عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: " من فاتته العيد فليصل أربعًا".

قوله: عن الشعبي الخ: قال المؤلف: دلالته على الباب ظاهرة، و لا دليل على الوجوب،و أقلّ ما يثبت به الاستحباب، و به نقول ... و قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى: إن شاء صلى، و إن شاء لم يصلّ، فإن شاء صلى أربعًا، و إن شاء ركعتين ..." الخ ( أبواب العيدين، باب من لم يدرك صلاة العيد، ٨ / ١٤٧ - ١٤٨، ط: إدارة القرآن)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"فَإِنْ عَجَزَ صَلَّى أَرْبَعًا كَالضُّحَى

(قَوْلُهُ: صَلَّى أَرْبَعًا كَالضُّحَى) أَيْ اسْتِحْبَابًا، كَمَا فِي الْقُهُسْتَانِيِّ. وَلَيْسَ هَذَا قَضَاءً لِأَنَّهُ لَيْسَ عَلَى كَيْفِيَّتِهَا ط.

قُلْت: وَهِيَ صَلَاةُ الضُّحَى كَمَا فِي الْحِلْيَةِ عَنْ الْخَانِيَّةِ، فَقَوْلُهُ: تَبَعًا لِلْبَدَائِعِ كَالضُّحَى مَعْنَاهُ  أَنَّهُ لَايُكَبِّرُ فِيهَا لِلزَّوَائِدِ مِثْلَ الْعِيدِ، تَأَمَّلْ". ( كتاب الصلاة، باب العيدين، ٢ / ١٧٦، ط: دار الفكر)

الفقه علي المذاهب الأربعة  میں ہے:

"الحنفية قالوا: الجماعة شرط لصحتها كالجمعة، فإن فاتته مع الإمام فلايطالب بقضائها لا في الوقت ولا بعده، فإن أحبّ قضاءها صلى أربع ركعات بدون تكبيرات الزوائد، يقرأ في الأولى بعد الفاتحة سورة "الأعلى"، وفي الثانية "الضحى" وفي الثالثة "الانشراح" وفي الرابعة "التين". ( مباحث صلاة العيدين، حكم الجماعة وقضائها إذا فات وقتها، ١ / ٣١٦ - ٣١٧، ط: دار الكتب العلمية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں