بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا درود شریف کی فضیلت کا تعلق کسی مخصوص الفاظ سے ہے؟


سوال

کیا " صلی الله عليه وسلم"اور "وصلی الله على النبي الأمي"یہ دونوں درود صحیح حدیث سے ثابت ہیں؟

مزید کیا ان میں سے کوئی بھی درود پڑھنے کا پورا پورا اجر ملے گا؛  مطلب بلندی درجات ،گناہوں کا مٹنا، نیکیوں کا ملنا اور اللہ کی رحمتوں کا نزول ہونا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا سورہ احزاب میں حکم فرمایا ہے،  ارشاد باری تعالی ہے: ( "صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا " الاحزاب: 56) اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

("لاتجعلوا بيوتكم قبورًا، و لاتجعلوا قبري عيدًا، و صلّوا عليّ؛ فإنّ صلاتكم تبلغني حيثما كنتم")

لیکن نہ ہی اللہ رب العزت نے درود و سلام کے لیے کوئی کلمہ مخصوص فرمایا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ایسی تعیین فرمائی کہ دیگر کلمات درود و سلام سے منع کردیا ہو، لہذا درود شریف کے متعدد کلمات سلف صالحین سے منقول ہیں، کچھ تو وہ کلمات ہیں، جو احادیث میں ملتے ہیں، اور درود شریف کے عام فضائل کے علاوہ ان کے دیگر فضائل بھی احادیث میں وارد ہوئے ہیں، اور کچھ کلمات وہ ہیں جو صراحتاً کسی حدیث میں منقول نہیں، تاہم ان کا پڑھنا ممنوع بھی نہیں، ایسے کلمات کے ذریعہ  درود شریف  پڑھنے والا شخص نفس درود شریف کے فضائل سے محروم نہیں ہوتا ،  کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 

1۔ "جو شخص مجھ  پر    ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ اپر دس رحمتیں نازل فرمایا ہے، اس کے دس گناہ بخش دیتا ہے۔" 

2۔   " جو  مجھ پر ایک مرتبہ درودھ بھیجتا ہے، تو  اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔" 

3۔  جو مجھ پر ایک مرتبہ  درودھ بھیجتا ہے، اللہ  اس پر دس ( رحمتیں، برکتیں) نازل کرتا ہے۔

پس درود شریف کے فضائل کا  حصول درود شریف کے کسی مخصوص جملہ پر منحصر نہیں ہے، لہذا درود شریف کے الفاظ خواہ   کوئی بھی ہوں، پڑھنا نا صرف جائز بلکہ باعث فضیلت و اجر ثواب ہے،  پڑھنے والا  شخص درود شریف پڑھنے کا پورا پورا اجر پائے  گا۔

صحیح ابن حبان میں ہے:

’’حط الخطايا عن المصلي على المصطفى صلى الله عليه وسلم بها

 أخبرنا محمد بن الحسن بن خليل، قال: حدثنا أبو كريب، قال: حدثنا محمد بن بشر العبدي، عن يونس بن أبي إسحاق، عن بريد بن أبي مريم، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي صلاة واحدة صلى الله عليه عشر صلوات، وحط عنه عشر خطيئات» .

ذكر كتبة الله جل وعلا الحسنات لمن صلى على صفيه محمد صلى الله عليه وسلم مرة واحدة.

905 - أخبرنا أحمد بن علي بن المثنى، قال: حدثنا وهب بن بقية، قال: أخبرنا خالد بن عبد الله، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه،  عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من صلى علي مرة واحدة، كتب له بها عشر حسنات» .

ذكر تفضل الله جل وعلا على المصلي على صفيه صلى الله عليه وسلم مرة واحدة بمغفرته عشر مرار

906 - أخبرنا الفضل بن الحباب، قال: حدثنا موسى عن إسماعيل بن جعفر، عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من صلى علي واحدة صلى الله عليه عشرا».‘‘

( كتاب الرقائق، باب الأدعية، 3 / 185 - 187، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت)

الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود للہیتمی میں ہے:

’’قيل: كان خلاد بن كثير رحمه الله تعالى في النزع، فوجد تحت رأسه رقعة مكتوب فيها: هذه براءة من النار لخلاد بن كثير، فسألوا أهله: ما كان عمله؟ فقال أهله: كان يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم كل يوم جمعة ألف مرة: (اللهم؛ صل على محمد النبي الأمي).‘‘

(الفصل السادس في ذكر أمور مخصوصة تشرع الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم فيها، الثامن: في يوم الجمعة وليلتها، ١ / ٢١٧، ط: دار المنهاج - جدة)

سنن ابی داود میں ہے:

’’حدثنا أحمد بن صالح، قرأت على عبد الله بن نافع، أخبرني ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم».‘‘

( كتاب المناسك، باب زيارة القبور، 2 / 218، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

سوال میں ذکر کردہ درود شریف کے الفاظ  (صلى الله عليه وسلم) کسی روایت میں نہیں ملے، البتہ سلفًا خلفًا تمام محدثین کتبِ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ یہ الفاظ تحریر کرتے آرہے ہیں، جب کہ  (اللهم صل على محمد النبي الأمي) کے الفاظ سنن ابی داود میں ملتے ہیں:

"981 - حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا محمد بن إسحاق، حدثنا محمد بن إبراهيم بن الحارث، عن محمد بن عبد الله بن زيد، عن عقبة بن عمرو، بهذا الخبر، قال: " قولوا: اللهم صل على محمد النبي الأمي، وعلى آل محمد."

(باب تفريع أبواب الركوع والسجود، باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد، 1 / 258، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں