بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا دوست ایک دوسرے سے بیوی بچوں کی خبر گیری کرسکتے ہیں؟


سوال

کیا ایک دوست دوسرے دوست سے اس کے بیوی بچوں کا حال دریافت کر سکتا ہے؟کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے ان کے بیوی بچوں کے بارے میں دریافت کرتے تھے کہ وہ کیسے ہیں ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل کی روشنی اور  حدیث کے حوالے کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی خبر گیری کرنے کا  نہ صرف معمول  تھا، بلکہ  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  خبر گیری کے لیے  ان کے گھر  بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔

فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي میں ہے:

"٧٠٣٤ - (كان يزور الأنصار ويسلم على صبيانهم) فيه رد على منع الحسن التسليم على الصبيان (ويمسح رؤوسهم) أي كان له اعتناء بفعل ذلك معهم أكثر منه مع غيرهم وإلا فهو كان يفعل ذلك مع غيرهم أيضا وكان يتعهد أصحابه جميعا ويزورهم.....الخ."

( باب كان وهي الشمائل الشريفة، ٥ / ٢١٦، ط: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

سنن النسائي میں ہے:

"١٩٠٧ - أخبرنا قتيبة ‌في حديثه عن مالك، عن ابن شهاب، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف ‌أنه أخبره: «أن مسكينة مرضت، فأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بمرضها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعود المساكين ويسأل عنهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا ماتت فآذنوني فأخرج بجنازتها ليلا وكرهوا أن يوقظوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر بالذي كان منها. فقال: ألم آمركم أن تؤذنوني بها قالوا: يا رسول الله، كرهنا أن نوقظك ليلا، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى صف بالناس على قبرها، وكبر أربع تكبيرات»."

( كتاب الجنائز، الإذن بالجنازة، ٤ / ٤٠، ط: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)

ترجمہ:" حضرت ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ بتلاتے ہیں کہ ایک مسکین عورت بیمار ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بیماری کی خبر دی گئی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکینوں اور غریبوں کی بیمار پرسی کرتے اور ان کی خبر گیری فرماتے تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اس کی وفات ہو جائے تو مجھے خبر کرنا"، رات میں اس کا جنازہ لے جایا گیا (تو) لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بیدار کرنا مناسب نہ جانا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صبح کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس کی ( وفات کے بارے میں ) بتلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: " کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ مجھے اس کی خبر کرنا؟"  تو صحابہ کرام رضواناللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ : اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو رات میں جگانا نا مناسب سمجھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (اپنے صحابہ کے ساتھ) نکلے یہاں تک کہ اس کی قبر پہ لوگوں کے ساتھ صف بندی فرمائی اور چار تکبیریں کہیں۔"

المستدرك على الصحيحين للحاكممیں ہے:

"١٤١٦ - حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه، ثنا بشر بن موسى، ثنا خلاد بن يحيى، ثنا بشير بن مهاجر، وحدثنا بكير بن محمد بن الحداد الصوفي، بمكة، ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، ثنا واصل بن عبد الأعلى، ثنا محمد بن فضيل، ثنا بشير بن المهاجر، عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعهد الأنصار ويعودهم، ويسأل عنهم، فبلغه عن امرأة من الأنصار مات ابنها وليس لها غيره، وأنها جزعت عليه جزعا شديدا، فأتاها النبي صلى الله عليه وسلم فأمرها بتقوى الله وبالصبر، فقالت يا رسول الله: إني امرأة رقوب لا ألد، ولم يكن لي غيره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الرقوب الذي يبقى ولدها» ، ثم قال: «ما من امرئ، أو امرأة مسلمة يموت لها ثلاثة أولاد إلا أدخلهم الله بهم الجنة» فقال عمر: يا رسول الله بأبي أنت وأمي واثنان قال: «واثنان» صحيح الإسناد، ولم يخرجاه بذكر الرقوب."

( كتاب الجنائز، ١ / ٥٤٠، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

ترجمہ:" حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انصار کے پاس جایا کرتے تھے، ان کی عیادت کرتے تھے اور ان کے بارے میں دریافت کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کی ایک عورت کے بارے میں بتایا جس کا بیٹا فوت ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا، اور وہ اس پر سخت غمگین تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، اور اسے تقوی اختیار کرنے، اور صبر کا حکم فرمایا، تو اس نے عرض کی کہ: اے اللہ کے رسول! میں تو رقوب خاتون ہوں، بچہ نہیں جن سکتی، اور اس کے علاوہ میری کوئی اولاد بھی نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "رقوب تو وہ ہے، جس کا بچہ باقی رہے" پھر فرمایا: ’" کوئی مسلمان مرد یا عورت نہیں جس کے تین بچے مرجائیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرے گا" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد اور والدہ آپ پر قربان ہوں، اور دو ( کیا یہ فضیلت دو بچوں کی وفات پر بھی والدین کو حاصل ہوگی؟) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "اور دو۔" ( يعنى یہ فضیلت دو بچوں کی فوتگی پر بھی ہے)."

فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناويمیں ہے:

"٧٠٣٤ - (كان يزور الأنصار ويسلم على صبيانهم) فيه رد على منع الحسن التسليم على الصبيان (ويمسح رؤوسهم) أي كان له اعتناء بفعل ذلك معهم أكثر منه مع غيرهم وإلا فهو كان يفعل ذلك مع غيرهم أيضا وكان يتعهد أصحابه جميعا ويزورهم.....الخ."

( باب كان وهي الشمائل الشريفة، ٥ / ٢١٦، ط: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

لہذا صورتِ مسئولہ میں دوست احباب  اور ان کے بیوی بچوں و گھر بار کی خبر گیری کرنا جائز ہے، تاہم الفاظ کے  چناؤ میں عرف و عادت اور  مخاطب کے مزاج کی  رعایت رکھی جائے۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں