میری شادی کو ایک سال سات ماہ ہوگئے ہیں،اور میری آٹھ ماہ کی بچی ہے،میرے شوہر نے ساڑھے چار ماہ سے مجھےگھر سے نکال دیاہے ،اور میں اپنی ماں کے پاس ہوں،مجھے دوطلاقیں دےچکاہے،ہفتے میں وہ تین بار بچی کو لینے آتاہے ،تب ہماری بات ہوتی ہے ،اب بھی بات بات پرطلاق کی دھمکی دیتاہے ،اب اگر ہم دوبارہ ساتھ رہناچاہیں ،توکیادوبارہ نکاح کرناہوگا؟دوسری طلاق کو اب چار ماہ ہونے والےہیں ۔
واضح رہے کہ دوطلاق رجعی کے بعد اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں توعدت میںصرف رجوع کافی ہوتا ہے،دوران عدت از سرنو نکاح کی ضرورت نہیں ، اورا گر دوران عدت رجوع نہیں کیاتوپھرایک ساتھ رہنے کے لیے شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرناضروری ہوتا ہے ، اور دونوں صورتوں میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔لہٰذاصورت مسئولہ میں اگر شوہر نے عدت کےدوران رجوع نہیں کیاتھاتو اب سائلہ اور اس کا شوہر دوبارہ نئے مہر کےساتھ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة . . . . . . . . . إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(باب الرجعۃ، ج:3، ص:397، ط: دارالفکر)
وفیہ ایضاً:
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".
(باب الرجعۃ، ج:3، ص: 409، ط: دارالفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144610101528
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن