بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا دم دینے کے لیے مکہ میں خود موجود ہونا ضروری ہے؟


سوال

 میں نے مسئلہ پوچھا تھا، جس کا فتوی نمبر 144106200216 ہے جس کی وجہ سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھ پر دم ہو گیا ہے۔ اب یہ راہ نمائی کریں کہ دم کس طرح ادا کروں؟ دم ادا کرنے کے لیے مکہ یا حرم کی حدود کے اندر جانا ہوگا؟ یا بکرا دنبہ ذبح کرنا ہوگا یا پاکستان میں کسی غریب مسکین کو پیسے دے سکتا ہوں یا کسی نادار، یتیموں کے لیے دم کے پیسے سے خوراک راشن لے سکتا ہوں؟ مختصر یہ کہ دم ادا کرنے کا آسان حل بتائیں کہ میں گناہ سے پاک ہو جاؤں اور ایک دفعہ دم کے کتنے پیسے بنتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دم کی  ادائیگی کے لیے آپ  کا بذاتِ خود حدودِ حرم میں ہونا ضروری نہیں، بلکہ مکہ مکرمہ  میں اگر کوئی جاننے والا ہو، یا آپ کے شہر سے کوئی عمرہ کے لیے جا رہا ہو تو اسے اپنا وکیل بنادیں کہ وہ آپ کی جانب سے حدودِ حرم میں دم ادا کردے۔

دم میں چوں کہ قربانی کا ایک چھوٹا  جانور (بکرا یا دنبہ) ذبح کرنا ہوتا ہے، جس کی قیمت کی تعیین خریدتے وقت ہی کی جاسکتی ہے، لہذا  ہمارے لیے درست قیمت  بتانا ممکن نہیں، لہذا  بہتر ہوگا کہ جسے وکیل بنائیں اس سے معلوم کرلیں، یا اسے چار سو سے پانچ سو ریال دے دیں، تاکہ وہ بکرا خرید کر دم ادا کر سکے۔

دم کی ادائیگی کے لیے چھوٹا جانور حدودِ حرم میں ذبح کرنا ہی ضروری ہے، اس کے بجائے غرباء کی مدد کرنا، یا راشن خرید کر دینا (خواہ حرم میں ہو یا یہاں پاکستان میں) کافی نہ ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں