بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو کرنسی کی خریدوفروخت یاکرپٹو کے ذریعے دیگر اشیاء کی خریدوفروخت اور اسے بطور سرمایہ کاری استعمال کرنے کا حکم


سوال

1)کرپٹو کرنسی کی خرید وفروخت یا اس کے ذریعے دیگر اشیاء کی خرید وفروخت  کا کیا حکم ہے؟

2)کرپٹو کرنسی کو بطورِ سرمایہ کاری کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1)کرپٹو کرنسی نہ تو کسی خارج میں موجود کرنسی ( physical existence) کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ  اس کرنسی کا کسی نوٹ یا کوائن کی صورت میں ڈیجٹل وجود ہے، یہ بس ایک تقسیم شدہ کھاتے(distributed ledger)  میں ہندسوں کا اندراج ہے اوراسی اندراج کو کرنسی فرض کر لیا گیا ہے،  لہذا یہ شرعا مال نہیں ہے  ؛کیونکہ مال کے لیے چیز کا حقیقی اور مادی ہونا ضروری ہے، مثلا ۱۰ بٹ کوائن (ایک قسم کی کرپٹو کرنسی ہے) زید نے بکر سے خرید لیے اس کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کھاتے (لیجر) میں یہ لکھ دیا گیا کہ زید نے بکر سے ۱۰ بٹ کوائن خرید لیے اور زید کے نام سے بکر کے نام پر منتقل ہوگئے، نہ خارج میں کسی مادی (physical) کرنسی کا ان دونوں کے درمیان تبادلہ ہوا اور نہ ہی کسی ڈیجٹل (ورچول ) کرنسی یا کوائن کا ان دونوں کے موبائل یا کمپیوٹر کے درمیان تبادلہ ہوا۔

پس جب یہ مال نہیں ہے تو  کسی حقیقی کرنسی (ڈالر وغیرہ) کے ذریعہ کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت اور کرپٹو کرنسی کے ذریعہ دیگر اشیاء کی خرید و فروخت  شرعادرست نہیں یعنی  اس  طرح خرید و فروخت کی صورت میں جانبین کی ملکیت مبیع اور ثمن پر ثابت نہیں ہوگی اور حاصل ہونے والے منافع( فقہی اصطلاح میں ارباح فاسدہ ہونے کی بناء پر)  سود کے حکم میں ہوں گے اور یہ عمل "اکل بالباطل" یعنی دوسرےکا مال ناجائز طریقہ سے ہتھیانے کے مترادف ہوگا۔

2)اسی طرح کرپٹو کرنسی کو بطور سرمایہ کاری استعمال  کرنا ( یعنی ڈالر یا پاکستانی روپیہ کے ذریعہ کرپٹو کرنسی خریدنا اور پھر ریٹ بڑھنے پر فروخت کرنا  ) جائز نہیں ہے اور حاصل ہونے والے منافع سود کے حکم میں ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

 "(بطل بيع ما ليس بمال)....(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم. (قوله والمعدوم كبيع حق التعلي) قال في الفتح: وإذا كان السفل لرجل وعلوه لآخر فسقطا أو سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز؛ لأن المبيع حينئذ ليس إلا حق التعلي، وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء، وليس الهواء مالا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج نمبر: ۵ ،ص نمبر: ۵۰،ایچ ایم سعید)

وفيها أيضا:

"وقدمنا أول البيوع تعريف المال بما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، وأنه خرج بالادخار، المنفعة فهي ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في التلويح، فالأولى ما في الدرر من قوله المال موجود يميل إليه الطبع إلخ فإنه يخرج بالموجود المنفعة فافهم. ولا يرد أن المنفعة تملك بالإجارة؛ لأن ذلك تمليك لا بيع حقيقة، ولذا قالوا: إن الإجارة لا بيع المنافع حكما: أي إن فيها حكم البيع وهو التمليك لا حقيقته، فاغتنم هذا التحرير."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج :نمبر: ۵، ص نمبر :۵۰،ایچ ایم سعید)

وفيها أيضا:

 "والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو ‌خاص ‌بالأعيان فخرج به تمليك المنافع. "

(کتاب الزکوۃ ،ج نمبر :۲، ص نمبر: ۲۵۷، ایچ ایم سعید)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"وبيانه أن صفة المالية للشيء إنما تثبت بالتمول، والتمول صيانة الشيء وادخاره لوقت الحاجة، والمنافع لا تبقى وقتين، ولكنها أعراض كما تخرج من حيز العدم إلى حيز الوجود تتلاشى، فلا يتصور فيها التمول؛ ولهذا لا يتقوم في حق الغرماء والورثة حتى أن المريض إذا أعان إنسانا بيديه أو أعاره شيئا فانتفع به لا يعتبر خروج تلك المنفعة من الثلث، وهذا لأن المتقوم لا يسبق الوجود، فإن المعدوم لا يوصف بأنه متقوم إذ المعدوم ليس بشيء، وبعد الوجود التقوم لا يسبق الإحراز، والإحراز بعد الوجود لا يتحقق فيما لا يبقى وقتين فكيف يكون متقوما، وعلى هذا نقول: الإتلاف لا يتصور في المنفعة أيضا؛ لأن فعل الإتلاف لا يحل المعدوم. وبعد الوجود لا يبقى لحله فعل الإتلاف، وإثبات الحكم بدون تحقق السبب لا يجوز، فأما بالعقد يثبت للمنفعة حكم الإحراز، والتقوم شرعا بخلاف القياس، وكان ذلك باعتبار إقامة العين المنتفع به مقام المنفعة لأجل الضرورة والحاجة."

(کتاب الغصب ،ج نمبر :۱۱، ص نمبر: ۷۹، دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں