بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کرکٹ میچ (کھیلنا) جائز ہے؟


سوال

کیا کرکٹ میچ (کھیلنا) جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بطورِ ورزش کرکٹ کھیلنا درست ہے، ليكن کھیلوں سے متعلق کچھ تفصیل ہے۔

 دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ تین کھیل ایسے ہیں  جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے جن میں ، گھڑ سواری، تیر اندزای اور تیراکی شامل ہیں۔

ان کھیلوں کا ذکر اور ترغیب احادیث میں صراحۃً ملتا ہے، تیراکی سیکھنے  سکھانے کی ترغیب احادیث میں ملتی ہے،  یہاں تک کہ ایک روایت میں ہے کہ اولاد کا والدین پر یہ  حق ہے کہ   وہ انہیں کتابت،  تیراکی، تیر اندازی سکھائیں، اور  اچھی تربیت کریں،  ایک اور روایت میں ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بیٹوں کو تیراکی اور  تیر اندازی سکھلاؤ،  اور مومنہ لڑکی کا گھر میں بہترین مشغلہ کپڑا کاتنا ہے، نیز فیض القدیر میں   امام بغوی کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ غدیر ( بڑے حوض)   میں داخل  ہوئے، اور فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے پاس تیر کر جائے، جس کے بعد سب ایک دوسرے کی جانب تیر کے پہنچے، آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بچ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جانب تیر کر  تشریف لے گئے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها".

 (كتاب الجهاد، ج:1، ص:363، ط:رحمانيه)

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

"وحدثنا أبو القاسم عبد الرحمن بن محمد السراج، أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن عبدوس الطرائفي، نا عثمان بن سعيد، نا زيد بن عبد ربه، نا بقية، عن عيسى بن إبراهيم، عن الزهري، عن أبي سليمان مولى أبي رافع، عن أبي رافع، قال: قلت: يا رسول الله، أللولد علينا حق كحقنا عليهم؟ قال: " نعم، حق الولد على الوالد أن يعلمه الكتابة والسباحة والرمي، وأن يؤدبه طيبا " عيسى بن إبراهيم هذا يروي ما لايتابع عليه."

(حقوق الاولاد و الاهلين، ج:11، ص:136، رقم الحدیث:8298، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

جامع المسانيد والسُّنَن الهادي لأقوم سنن لابن كثيرمیں ہے:

"روى أبو نعيم من طريق إسماعيل بن عياش الحمصي، عن سليم ابن عمرو، عن عم أبيه، عن بكر بن عبد الله بن الربيع الأنصاري، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه قال: (علموا أبناءكم السباحة والرماية، ونعم لهو المؤمنة في بيتها المغزل، وإذا دعاك أبواك فأجب أمك) وقال ابن الأثير: ورواه ابن منده وأبو موسى".

(بكر بن عبد الله بن الربيع الأنصاري، ج:1، ص:547، رقم الحدیث:112، ط:دارخضر للطباعةوالنشروالتوزيع، بيرو -لبنان)

فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي میں ہے:

" (علموا أولادكم السباحة والرماية) في رواية الرمي (ونعم لهو المؤمنة) في رواية بدله المرأة (في بيتها المغزل وإذا دعاك أبواك فأجب أمك) أولا ثم أباك لأنها مقدمة على الأب في البر وهذا منه قال الحكيم: هذه خصال من رؤوس الأدب فلاينبغي أن يغفل عنها وكتب عمر رضي الله عنه إلى الشام أن علموا أولادكم السباحة والرمي والفروسية قال ابن سعد في الطبقات: كان أسيد بن حضير يكتب بالعربية في الجاهلية وكانت الكتابة في العرب قليلة وكان يحسن العوم والرمي وكان يسيء من كانت هذه الخصال فيه في الجاهلية وأول الإسلام الكامل وكانت قد اجتمعت في أسيد وفي سعد بن عبادة ورافع بن خديج وأمر بعض الكبراء معلم ولده أن يعلمه السباحة قبل الكتابة وعلله بأن -[328]- الكاتب يصاب ولا كذلك السابح وزعم بعضهم أن المصطفى صلى الله عليه وسلم لم يعم لأنه لم يثبت أنه سافر في بحر ولا في الحرمين بحر ونوزع بما أخرجه البغوي عن ابن أبي مليكة أن المصطفى صلى الله عليه وسلم دخل هو وأصحابه غديرا فقال: يسبح كل رجل إلى صاحبه فسبح كل رجل منهم إلى صاحبه حتى بقي أبو بكر والمصطفى صلى الله عليه وسلم فسبح إلى أبي بكر واعتنقه".

(حرف العين، ج:4، ص:327، رقم المادۃ:5478، ط:المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

چناچہ فقہاءِ کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں ،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه". 

(قبیل کتاب الرؤیا، ج:4، ص:435، ط:دارالعلوم کراتشی)

         ان اصولوں   کی رو  سے موجودہ دور کے اکثر و بیشتر کھیل ناجائز اور غلط نظر آتے ہیں، اس لیے کہ بعض کھیل تو ایسے ہیں کہ  جن میں ایسے لباس کا  انتخاب کیا جاتا ہے جس سےانسان کے اعضاءِ مستورہ نظر آتے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جس سے اعضاء مستورہ کا حجم نمایاں ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں جن میں قمار اور جوا پایا جاتا ہے، اور بعض میں مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں  جن  میں  نہ کوئی دینی  منفعت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیوی، مزید  یہ کہ جیسے ہی ان کھیلوں کا  زمانہ آتا ہے،  کھیل کے شوقین حضرات اپنے شرعی فرائض چھوڑ کر  اسی میں مشغول ہوجاتے ہیں،  کھیل کا ایسا ذوق پیدا کردیا گیا ہے کہ گویا ہمارے نوجوان  صرف  کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ، کھیل ہی کو زندگی کا بنیادی مقصد بنادیا گیا ہے،  گویا پوری قوم کھیل کے لیے پیدا ہوئی ، اور اس کھیل ہی کو  پوری زندگی کا اہم ترین کارنامہ فرض کرلیا گیا ہے،  کھیل کا ایسا مشغلہ  جائر نہیں۔

         ارشادِ باری تعالی ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ }." [لقمان: 6]

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها". 

(سورۃ لقمان، ج:11، ص:66، ط:دارالكتب العلميه)

         حاصل یہ ہے کہ اگر کرکٹ میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً مردوں اور عورتوں کا اختلاط ، موسیقی اور جوا وغیرہ  یا تصویر سازی ہو  یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو یہ جائز نہیں ہے ۔

         البتہ  اگر اس میں مذکورہ خرابیاں نہ پائی جائیں، بلکہ اسے بدن کی ورزش ، صحت اور تن درستی باقی رکھنے کے لیے یا کم از کم طبعیت کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کھیلا جائے، اور اس میں غلو نہ کیا جائے ،  اسی کو مشغلہ نہ  بنایا جائے،  اور ضروری کاموں میں اس سے حرج نہ پڑے تو پھر جسمانی ورزش کی حد تک  کرکٹ کھیلنے کی گنجائش ہوگی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں