بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا چودہ سال کا لڑکا تراویح کی نماز پڑھا سکتا ہے؟


سوال

میرا بیٹا جس کی عمر تقریباً چودہ سال ہے،تراویح  میں مسجد میں قرآن پاک سنانا چاہتا ہے، جب کہ ابھی داڑھی مونچھ وغیرہ نہیں آئی،تو  کیا وہ مسجد میں یا گھر میں تراویح کی شکل میں قرآن سنا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کی کوئی تدبیر کہ قرآن سنا لے؟

جواب

 واضح رہے کہ فرض  اور نفل نماز (تراویح وغیرہ) میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ امام کی اقتدا  میں بالغ مقتدیوں کی  نماز  ادا نہیں ہوگی، ہاں نابالغ  لڑکا اپنے جیسے نابالغ بچوں کی امامت کرلے تو اس میں مضائقہ نہیں،بالغ ہونے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات  ظاہر ہوجائیں تو  وہ امامت کرسکتاہے،خواہ داڑھی اس کی نکلی ہو یانہ نکلی ہو،داڑھی کا نکلنا بلوغت کی علامات  میں سےنہیں ہے،اور فقہاءِ کرام کی عبارات سے واضح  ہوتاہے کہ لڑکے کے لیے بلوغت کی کم ازکم عمر  12 سال ہے، اس عمر میں اگر بالغ ہونے کی علامات میں سے کوئی علامت مثلاً   لڑکے میں احتلام، انزال، یا اس کے جماع کرنے سے بیوی کا حاملہ ہونا ، ظاہر ہوجائے، تو اس کو  بالغ سمجھاجائے گا، اور اگر ان  علامات میں سے کوئی علامت  ظاہر نہ ہو، یہاں تک کہ قمری اعتبار سے  پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائے،تو بلوغت کا حکم  خود ثابت ہوجائے گا،لہذا چاند اسلامی تاریخ کے اعتبار سے   پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا امامت نہیں کراسکتا۔

نیز فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ لڑکے میں کم سے کم بارہ سال کی عمر میں بلوغت کی علامات معتبر ہیں، اس سے پہلے  علامت بلوغت کا  اعتبار نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں  اگر بچہ کی علاماتِ بلوغت واضح ہو چکی ہیں، تو  اس کے پیچھے  تراویح کی نماز   پڑھنا جائز ہے ، اور اگر علامتِ بلوغت ظاہر نہیں ہوئی، تو   اس کے پیچھے  بالغ مقتدی نماز  نہیں پڑھ  سکتے ہیں،جب تک کہ اس کی عمر  قمری پندرہ سال کی نہ ہوجائے۔

اگر بچہ کو قرآن کریم تراویح میں سنانے کا شوق ہے،تو اس کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جائے کہ وہ اپنے ہم عمروں لڑکوں اور دوستوں کو اپنے پیچھے کھڑا کرکے تروایح سنالے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما شروط الإمامة فقد عدها في نور الإيضاح على حدة، فقال: وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة."

(الفتاوي الشامي، کتاب الصلوة ، باب الإمامة ج:1  ص:550 ط:سعید)

فتاوی ھندیۃ میں ہے:

"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز، كذا في الخلاصة ... المختار أنه لايجوز في الصلوات كلها، كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق."

(الفتاوي الهندية، کتاب الصلوة، الباب الخامس فی الإمامة، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماما لغیرہ ج:1  ص:85 ط: دار الفکر بیروت)

النتف فی الفتاوی میں ہے:‌‌

"من لا تجوز امامتهم:

والثاني إمامة الصبي للمدرك في الفريضة في قول الفقهاء ."

(النتف في الفتاوي، کتاب الصلوة، باب من لا تجوز إمامتهم،  ص:64 ط: رشیدیة)

البحر الرائق میں ہے:

"قال رحمه الله: (بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والانزال وإلا فحتى يتم له ثمانية عشر سنةً) ... وعن الإمام في الغلام تسع عشرة سنةً، قيل: المراد أن يطعن في التاسع عشرة فلا اختلاف بين الروايتين؛ لأنه لايتم ثمانية عشر سنةً وإلا ويطعن في التاسع عشرة، وقيل: فيه اختلاف الروايتين حقيقة لأنه ذكر في بعض النسخ حتى يستكمل تسع عشرة سنةً. ولما كان الذكر أشرف قدم ما يتعلق به.

قال رحمه الله: (والجارية بالحيض والاحتلام والحبل وإلا فحتى يتم لها سبع عشرة سنةً) أما الحيض فلأنه يكون في أوان الحبل عادة، فجعل ذلك علامة البلوغ، وأما الحبل فلأنه دليل على الإنزال؛ لأن الولد يخلق من ماء الرجل والمرأة غير أن النساء نشوهن وإدراكهن أسرع فزدنا سنة في حق الغلام لاشتمالها على الفصول الأربع التي منها ما يوافق المزاج لا محالة فيقوي فيه.

قال رحمه الله: ( ويفتى بالبلوغ فيهما بخمسة عشر سنةً) عند أبي يوسف ومحمد، وهذا ظاهر لايحتاج إلى الشرح.

قال رحمه الله: ( وأدنى المدة في حقه اثنتا عشرة سنةً وفي حقها تسع سنين) يعني لو ادعيا البلوغ في هذه المدة تقبل منهما، ولاتقبل فيما دون ذلك؛ لأن الظاهر تكذيبه.

قال في العناية: ثم قيل: إنما يعتبر قوله بالبلوغ إذا بلغ اثنتي عشرة سنةً فأكثر، وقد أشار إليه بقوله: أدنى المدة وهذه المدة مذكورة في النهاية وغيرها و- لايعرف إلا سماعا أو بالتتبع".

(البحر الرائق،کتاب المأذون، ج:8 ص:96 ط:دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144507100804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں