کیا بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کے بیوی کو غسل نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کا نکاح انتقال کے فورا بعد ٹوٹ جاتا ہے؟
بیوی کے انتقال کی صورت میں نکاح کا رشتہ آخرت کے اعتبار سے ختم نہیں ہوتا البتہ دنیوی احکام کے اعتبار سے ختم ہوجاتا ہے کہ شوہر مرحومہ بیوی کے جسم کو نہ بلا حائل چھو سکتا ہے، نہ غسل دے سکتا ہے، اور نکاح کی وجہ سے بیوی کے وہ تمام رشتہ دار جن سے نکاح کی شرعاً اجازت نہیں تھی وہ سب کے سب حلال ہوجاتے ہیں، البتہ مرحومہ بیوی کے چہرے کو دیکھ سکتا ہے ، جنازہ کو کندھا دے سکتا ہے، مرحومہ بیوی کے محارم کے ساتھ اس کی قبر میں بھی اترسکتا ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ويمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إليها على الأصح) منية....(وهي لا تمنع من ذلك).
(قوله وهي لا تمنع من ذلك) أي من تغسيل زوجها دخل بها أو لا كما في المعراج ومثله في البحر عن المجتبى."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:189، ط: سعید)
خلاصة الفتاوي میں ہے:
"وقال الإمام الأجل فخر الدين خان: يكره للناس أن يمنعوا حمل جنازة المرأة لزوجها مع أبيها و أخيها، و يدخل الزوج في القبر مع محرمها استحساناً، و هو الصحيح و عليه الفتوي." (١ / ٢٢٥)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144507100003
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن