بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹا اپنی ماں سے زکات لے سکتا ہے؟


سوال

کیا بیٹا اپنی ماں سے زکات لے سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  زکات  اپنے اصول یعنی والدین ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ اور اپنے فروع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ کو  دینا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں بیٹے کا اپنی ماں سے زکات لینا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا) إلى (من بينهما ولاد).

وفي حاشيته: قوله: (وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادة وولادا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج: 2، ص: 346، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

(کتاب الزکاۃ، ج: 1 ،ص: 188، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں