بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بہن کو زکات دے سکتے ہیں؟


سوال

میری ایک بیوہ بہن ہیں، ان کے پانچ بچے ہیں، جس گھر میں رہتے ہیں، وہ گھر تو بڑا ہے، لیکن شوہر کے نام پر تھا،ان کے نام پر نہیں ہے، اس گھر میں شوہر کی ماں کا بھی حصہ بنتا ہے، میری بہن کا ذریعۂ روزگار کچھ نہیں ہے، ایک بیٹی نوکری کرتی ہے، جس کی تنخواہ تیس ہزار روپے ہے، وہ بیٹی یہ رقم اپنے اوپر ہی خرچ کرتی ہے، ایک دوسری بیٹی بھی نوکری کرتی ہے، جس کی تنخواہ دس ہزار روپے ہے، میرا چھوٹا دیور اُن کے ساتھ رہتا ہے، گھریلو اخراجات میں ان کے ساتھ تعاون بھی کرتا ہے، ہم لوگ بھی راشن وغیرہ لے کر دیتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم زکات کی رقم سے ان کی امداد کرسکتے ہیں؟میرے شوہر کہتے ہیں کہ زکات کی رقم سے ان کی مدد کر سکتے ہیں؛ کیوں کہ فی الحال ان کے پاس کچھ نہیں ہے، گھر بھی ان کے نام نہیں ہے۔

جواب

جس مسلمان ضرورت مند شخص  کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، نیز  زکاۃ  کی رقم میں تملیک شرط ہے یعنی جوشخص زکاۃ  کا مستحق ہے اسے زکاۃ  کی رقم کا مالک بنادیا جائے ،ورنہ مالک بناۓ بغیر صرف کارِ خیر میں خرچ کردینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی؛لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً  آپ کی بہن  مستحقِ زکات ہیں تو ان کو زکوۃ دینا نہ صرف جائز ہے ،بلکہ افضل  ہے اور ان کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجاۓ گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسیرها فھي تملیك المال من فقیر مسلم غیر هاشمي ولامولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه لله تعالی هذا في الشرع."

(کتاب الزکوۃ، الباب الاول فی تفسیرالزکوۃ،ج:1،ص:170،ط:مکتبه حقانیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج:1،ص:190، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں