بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بریلوی کے پیچھے پڑھی گئی نماز واجب الاعادہ ہے؟


سوال

بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ، کیا ان کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا اعادہ ضروری ہے ؟

جواب

اگر بدعتی امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے مانند ہر جگہ حاضر وناظر، عالم الغیب، اور مختارِ کل سمجھتا ہے، تو یہ شرک ہے؛ کیوں کہ اللہ ایک ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر وناظر، عالم الغیب اور مختارِ کل ہونے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہوجاتے ہیں، اور کلمۂ طیبہ کلمۂ شہادت کی شہادت کے خلاف ہوجاتا ہے، اس لیے جان بوجھ کر ایسے عقائد رکھنے والے  امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں لوٹانا لازم ہوگا، اور اگر لاعلمی میں پڑھ لی تو ہوجائے گی، لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اور اگر بدعتی امام  ایسے عقائد کا حامل نہیں ہے جو شرکیہ کہلاتے ہوں، مثلاً صرف تیجہ، چالیسواں وغیرہ جیسی بدعات میں مبتلا ہے، تو اس کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر صحیح عقیدہ والا امام مل جائے تو بدعتی امام کی اقتداء میں نماز  نہ پڑھی جائے، اور اگر صحیح عقیدہ والا امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لے، جماعت نہ چھوڑے، اور ایسی صورت میں نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیز گار امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے، اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويكره) ... (إمامة عبد) ... (وأعرابي) ... (ومبتدع) أي صاحب بدعة ... (لا يكفر بها) ... (وإن) ... (كفر بها) ... (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ ... وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.

وقال عليه في الرد: (قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي» قال في الحلية: ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعا «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٥٥٩، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"قال بعض مشايخنا: إن الصلاة خلف المبتدع لا تجوز، وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة."

(كتاب الصلاة، فصل بيان من هو أحق بالإمامة وأولى بها، ١/ ١٥٧، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن ‌وحاصله ‌إن ‌كان ‌هوى ‌لا ‌يكفر ‌به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح، هكذا  في البدائع."

(كتاب الصلاة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ١/ ٨٤، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں