بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بالغ اولاد کے گناہوں کا وبال والدین پر ہوگا؟


سوال

میرا ایک لڑکی سے تعلق ہے، میری شادی بھی اسی لڑکی سے ہونی ہے، گھر والوں کو نکاح کا بول چکا ہوں، اس لڑکی سے میری بات چیت بھی ہوتی ہے اور کافی ملاقاتیں  بھی ہوتی ہیں، میں بری طرح اس کبیرہ گناہ میں مبتلا ہوں ،یہ سب میرے گھر والوں کو بھی معلوم ہے، کیا میرے گھر والے بھی اس گناہ میں شامل ہوں گے؟ جب کہ لڑکا اور لڑکی دونوں نکاح کے لیے راضی ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی جس سے آپ کا تعلق ہے اور آپ دونوں نکاح کے لیے راضی ہیں،جب تک اُس سے آپ کا نکاح نہیں ہوجاتا،وہ آپ کی نا محرم ہے اور نامحرم لڑکی سے  تعلقات رکھنا، ملنا جلنا،بغیر ضرورت بات چیت  کرنا جائز نہیں ہے، کبیرہ گناہ ہے، آپ دونوں کو چاہیے کہ اس گناہ سے بچیں اور توبہ کریں۔ اب اگر آپ کے والدین آپ کو اس گناہ سے روکتے ہیں اور آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس صورت میں آپ خود ہی اس گناہ کے ذمہ دار ہوں گے، والدین اس گناہ میں شامل نہیں ہوں گے، لیکن اگر آپ کے والدین آپ کو اس گناہ سے بچنے کی تلقین نہیں کرتے اور اس میں کسی قسم کی قباحت  محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی اس کو عار سمجھتے ہیں، تو  وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔ نیز سائل کو چاہیے کہ والدین کو راضی کرکے جلد نکاح کرلے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

1۔"وقال مكحول في قوله تعالى عليكم أنفسكم إذا هاب الواعظ وأنكر الموعوظ فعليك حينئذ نفسك لا يضرك من ضل إذا اهتديت."

(سورة المائدة، الآية:103، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ج:4، ص:159، ط: دار إحياء التراث العربي)

2۔"{يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا} روي عن علي في قوله: {قوا أنفسكم وأهليكم} قال: "علموا أنفسكم وأهليكم الخير" وقال الحسن: "تعلمهم وتأمرهم وتنهاهم"...ويدل على أن للأقرب فالأقرب منا مزية به في لزومنا تعليمهم وأمرهم بطاعة الله تعالى، ويشهد له قول النبي صلى الله عليه وسلم: "كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته" ومعلوم أن الراعي كما عليه حفظ من استرعي وحمايته والتماس مصالحه فكذلك عليه تأديبه وتعليمه; وقال عليه السلام: "فالرجل راع على أهله وهو مسئول عنهم والأمير راع على رعيته وهو مسئول عنهم."

(سورة التحريم، الآية:6، ‌‌مطلب: يجب علينا تعليم أولادنا وأهلينا، ج:3، ص:624، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ولا ‌يكلم ‌الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى. قال ابن عابدين: (قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس،ج:6، ص:369، ط: سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"وتحرم ‌الخلوة ‌بالأجنبية ويكره الكلام معها."

(الفن الثالث، أحكام الأنثى، ص: 279، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں