بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیابالغ بیٹے کی شادی کے اخراجات باپ پر لازم ہوتے ہیں؟


سوال

میری عمر اٹھارہ سال ہے اور ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اورخواہش ہے کہ کسی بھی مناسب جگہ نکاح ہو جائے،میں نے والدین سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا لیکن والدین یہ کہتے ہیں کہ بیوی کے خرچے کا تم خود انتظام کرو جب کہ الحمدللہ اللہ نے میرے ماں باپ کو اتنی استطاعت دی ہے کہ وہ دو لوگوں کا خرچ اٹھا سکتے ہیں تو کیا اس سلسلے میں والدین کو چاہیے کہ میرا نکاح کر دیں؟

جواب

 واضح رہے کہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والدین کے ذمہ نہیں رہتا، چنانچہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدین  سائل کے  جو اخراجات اٹھاتے ہیں وہ اخلاقاً بطورِاحسان کےاٹھاتےہیں،لہذا  اگر باوجوداستطاعت کے والدین اپنے بالغ بیٹے(سائل)کا خرچہ نہیں اٹھارہےتووہ گناہ گارنہیں ہوں گے،اسی طرح شادی کا خرچہ نہ اٹھانے کی وجہ سے بھی وہ گناہ گار نہیں ہوں گے،سائل کو چاہیے کہ  جب والد شادی کے اخراجات اٹھانےکو تیار نہیں اورسائل کےپاس بیوی کےنان ونفقہ کا انتظام بھی نہیں،توجب تک انتظام نہ ہو شادی کاخیال ترک کرے یاپھر  پڑھنے کے ساتھ ساتھ حلال مال کمانے کی کوشش کرکے اپنی شادی اور بیوی کا نفقہ اٹھانے کابندوبست کرکےشادی کرےاور شادی  کی فضول و غیر ضروری رسموں  اور فضول خرچی سے بچے،اس طرح کم خرچے میں اپنی محنت کی کمائی سے شادی ہوجائے گی، اور جب تک اس کا انتظام نہ ہوسکے تو گناہ سے بچنے کے لیے حدیث میں روزہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه."

(کتاب النکاح، باب الولي في النکاح واستیذان المرأة، الفصل الثالث،(939/2) رقم: 3138، ط: دار الکتب العلمیۃ)

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

وفيها أيضا:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ‌معشر ‌الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء."

(کتاب  النکاح،الفصل الاول،(927/2)،رقم: 3070،ط:دار الکتب العلمیۃ )

 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا:

"اے جوانوں کی جماعت!! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی استطاعت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیوں  کہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کرلینا چاہیے ؛ کیوں کہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔"۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب ‌لا ‌يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق الباب السابع عشر، الفصل الرابع فی نفقۃ الأولاد، جلد:1، صفحہ:560، طبع: رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، جلد:3، صفحہ: 612، طبع: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں