میں غیر شادی شدہ ہوں اوربچی گود لینا چاہتی ہوں ،بچہ یا بچی کو کیا ہم گود لے سکتے ہیں ،ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے یانہیں ؟اور اگر دیتاہے تو کن باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے،میں جو بچی گود لینا چاہ رہی ہوں، ان ماں باپ کا کہنا ہےکہ چار بچے ان کے پہلے بھی ہیں اوروہ اس کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے؛اس لیے دینا چاہتے ہیں ،اوروہ کسی دوسری خاتون کےذریعہ دیں گے، نہ دینے والا سامنےآئے گا اورنہ لینے والا،جہاں تک مجھےمعلوم ہے، ہم بچہ یا بچی گود نہیں لے سکتے، ہاں کفالت کا ذکر ہے، کفالت کرسکتے ہیں ،دونوں باتوں کا فرق بھی سمجھا دیں کہ گود لینااورکفالت کرنےمیں کیا فرق ہے؟مجھے اس مسئلے کاجو اب عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کے بچہ / بچی کو لے کر پالنا چاہے تو ایسا کرنا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
1۔ ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچہ /بچی کی نسبت اس کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے،ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے، کیوں کہ کسی کو منہ بولا بیٹا /بیٹی بنانے سے وہ شرعاً حقیقی بیٹا/بیٹی نہیں بنتا، اور نہ ہی ایسے بچہ /بچی پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،وہ گود لینے والے کا وارث ہوتا ہے، اور نہ پالنے والا لے پالک کا وارث ہوتا ہے۔بلکہ توارث کا تعلق بدستور ایسے بچہ / بچی اور اس کے والدین و نسبی رشتہ داروں سے قائم رہتا ہے، البتہ گود لینے والے کو اس کی پرورش، تعلیم وتربیت اور ادب واخلاق سکھانےحق ہوتاہے، جس پروہ ثواب کا حق دار ہوتاہے، اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولی اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ حکم دیا کہ منہ بولی اولادکو حقیقی اولاد کا درجہ مت دو،بلکہ ان کو ان کےکے اصل والد کی طرف ہی منسوب رکھو۔
2۔ دوسری بات یہ کہ اگر گود لیے جانے والا / بچہ / بچی اگر گود لینے والی شخصیت کے لیے نا محرم ہو، تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام ضروری ہوگا، کیوں کہ محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی، البتہ اگر گود لینے والی عورت اس بچے کو رضاعت کی مدت (بچہ / بچی کی عمر دو سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے) میں خود دودھ پلادے تو وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا یا گود لینے والی شخصیت لے پالک کو اپنی بہن یابھابی کا دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی بن جائے گی، اس صورت میں بلوغت کے بعد پردہ کرنا شرعا لازم نہیں ہوگا۔
لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا تفصیل کی پاسداری کرتے ہوئےبچہ یا بچی کو گود لینا جائز ہوگا،البتہ سائلہ چوں کہ غیر شادی شدہ ہے،اس لیے اگر سائلہ کی بہن بچہ کو دودھ پلائےتو پھر اس بچہ سے پردہ لازم نہیں ہوگا،وگرنہ لڑکابڑا ہوجانےکےبعد پھراس سے شرعی پردہ ضروری ہوگا۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا "[الأحزاب: 4، 5]
ترجمہ:" اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔" (از بیان القرآن)
التفسیرالمظہری میں ہے:
"فلا يثبت بالتبني شىء من احكام البنوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."
(سورۃ الأحزاب، ج: 7 ص: 284، ط: رشيدية)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة، إلى يوم القيامة"
(باب الرجل ینتمی الی غیر موالیه، ج:4، ص: 330، ط: المکتبة العصریة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"كل من تحرم بالقرابة والصهرية تحرم بالرضاع."
(كتاب النكاح، ج: 1، ص: 277، ط: دار الفكر)
وفيه ايضاً:
"يحرم علي الرضيع أبواه من الرضاع و أصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جمعاً حتي أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أوبعده...إلخ."
(كتاب النكاح،فصل في الرضاعة، ج:1، ص: 343، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102217
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن