کب مال پر باپ کو ملکیت ہوگی "أنت و مالك لأبیك" والی حدیث زیر نظر ہوتے ہوئے۔
از روئے شرع بیٹے کے کمائے ہوئے کا باپ مالک نہیں ہوتا تاہم ضرورت مند والد کا نفقہ اس کے بیٹے پر لازم ہے، اگر والد محتاج اور غریب ہو اور اپنی اولاد کے مال کا محتاج ہو تو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لے کر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس میں اولاد سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں، اور سوال میں مذکور حدیث کی یہ ہی تشریح محدثین نے فرمائی ہے؛ لہذا والد مطلقاً اپنی اولاد کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے؛ اس لیے والد اپنے بیٹے کی زمین یا اس کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو بطورِ ہدیہ دینے کا حق نہیں رکھتا۔
حاشية السندي على سنن ابن ماجه میں ہے:
"وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء".
(کتاب التجارات، باب ما للرجل من مال ولده، ج:2، ص:43، ط:دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101039
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن