بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت یا مرد جب مردے کو ہاتھ لگائے تو ان پر غسل واجب ہوجاتی ہے ؟


سوال

کیا عورت یا مرد جب مردے کو ہاتھ لگائیں تو ان پر غسل واجب ہوجاتا ہے ؟

جواب

مردے  کو ہاتھ لگانے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔مزید یہ کہ  میت کو غسل دینے والے کے لیے میت کو غسل دینے کے بعد  خود بھی غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ غسل کرنا مستحب ہے، اور اسی طرح بہتر ہے کہ کپڑے بھی تبدیل کرلے، تاہم اگر کپڑوں میں کوئی نجاست نہ ہو تو کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔

"معالم السنن، للخَطّابي (ت ٣٨٨ هـ)"میں ہے:

"‌‌ومن باب الغسل من ‌غسل ‌الميت

قال أبو داود: حدثنا أحمد بن صالح حدثنا ابن أبي فديك حدثني ابن أبي ذئب عن القاسم بن عباس عن عمرو بن عمير، عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ‌غسل ‌الميت فليغتسل ومن حمله فليتوضأ.

قلت ‌لا ‌أعلم ‌أحدا من الفقهاء يوجب الاغتسال من ‌غسل ‌الميت ولا الوضوء من حمله، ويشبه أن يكون الأمر في ذلك على الاستحباب، وقد يحتمل أن يكون المعنى فيه إن غاسل الميت لا يكاد يأمن أن يصيبه نضح من رشاش الغسول وربما كان على بدن الميت نجاسة فإذا أصابه نضحه وهو لا يعلم مكانه كان عليه غسل جميع البدن ليكون الماء قد أتى على الموضع الذي أصابه النجس من بدنه. وقد قيل معنى قوله فليتوضأ أي ليكن على وضوء ليتهيأ له الصلاة على الميت والله أعلم. وفي إسناد الحديث مقال."

(معالم السنن (وهو شرح سنن الإمام أبي داود)، لأبي سليمان، حمد بن محمد الخَطّابي (ت ٣٨٨ هـ)، ج:1، ص:307،  المطبعة العلمية بحلب)

"البنایة شرح الهدایة للعینيؒ"میں ہے:

" لا غسل على من غسل ميتا، وهو قول عامة أهل العلم كابن عباس وابن عمر وعائشة والحسن البصري والنخعي والشافعي وأحمد وإسحاق وأبي ثور - رحمهم الله - وحكاه أبو بكر ابن المنذر وقال: لا شيء عليه، وليس فيه حديث يثبت. وعن علي وأبي هريرة أنهما قالا من غسل ميتا فليغتسل، وبه قال ابن المسيب وابن سيرين والزهري. وقال النخعي وأحمد وإسحاق - رحمهم الله - يتوضأ. وقال مالك: أحب له الغسل، واستحبه الشافعي. وقال في " البويطي ": إن صح الحديث قلت بوجوبه. والأول أصح. وروى أبو هريرة - رضي الله عنه - أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: «من غسل ميتا فليغتسل» رواه أبو داود وغيره. وقال البيهقي: الصحيح أنه موقوف على أبي هريرة - رضي الله عنه -. وقال الترمذي عن البخاري أنه قال: إن أحمد وعلي بن المديني قالا: لا يصح في الباب شيء، وكذا قال محمد بن يحيى شيخ البخاري، ورواه البيهقي أيضا من رواية حذيفة مرفوعا، وإسناده ساقط. وأما «حديث علي - رضي الله عنه - أنه غسل أباه أبا طالب فأمره النبي - صلى الله عليه وسلم - أن يغتسل» ورواه البيهقي من طريق فهو حديث باطل. وحديث عائشة - رضي الله عنها - «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يغتسل من الجنابة ويوم الجمعة ومن الحجامة وغسل الميت» رواه أبو داود وغيره بإسناد ضعيف، وهكذا الحديث في الوضوء من حمل الميت ضعيف. وروى أبو داود والترمذي عن أبي هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: «من غسل ميتا فليغتسل، ومن حمله فليتوضأ» وقال الترمذي: حديث حسن، قال النووي: بل عليه قوله حسن بل هو ضعيف، بين ضعفه البيهقي وغيره. وقال المزني: هذا الغسل غير مشروع، وكذا الوضوء من مس الميت وحمله، لأنه لم يصح فيها شيء. وقال في " المختصر ": لو مس خنزيرا فليس عليه شيء من الوضوء ولا الغسل، فالمؤمن أولى. قال النووي: هذا قوي. وقال أصحابنا: هذا إذا ثبت محمول على غسل ما أصابه من غسالة الميت."

(باب الجنائز، تسریح شعر المیت ولحیته: ج:3، ص:193، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وندب لمجنون أفاق) ... ولمن لبس ثوباً جديداً أو غسل ميتاً. 

 (قوله: أو غسل ميتاً) للخروج من الخلاف كما في الفتح".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ،كتاب الطهارة،سنن الغسل،ج:1، ص:169،ط: سعيد)

محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ  کی مایا ناز تصنیف "آپ کے مسائل اور ان کا حل"میں اسی  طرح سوال کی جواب دیا ہے :

س… عرض یہ ہے کہ ہمیں ایک اُلجھن درپیش ہے، وہ یہ کہ مردہ اجسام کو ہاتھ لگانے سے غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ ہمیں یہ جان کر بھی اطمینان میسر ہوگا کہ دیگر فقہ نے اس مسئلے کے سلسلے میں کیا لکھا ہے؟ اُمید ہے کہ آپ فقہِ حنفی، حنبلی، شافعی اور مالکی سے بھی ہمارے اس مسئلے کا حل بتائیں گے۔

ج… جہاں تک مجھے معلوم ہے میّت کو ہاتھ لگانے سے کسی کے نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا، ایک حدیث میں ہے کہ: “جس نے میّت کو غسل دیا وہ غسل کرے، اور جو میّت کو اُٹھائے وہ وضو کرے۔” اس کی سند میں محدثین کو کلام ہے، اور فقہائے اُمت نے اس حکم کو استحباب پر محمول کیا ہے، امام ابوسلیمان خطابی “معالم السنن” میں لکھتے ہیں: “مجھے کوئی ایسا فقیہ معلوم نہیں جو میّت کو غسل دینے پر غسل واجب ہونے کا، اور میّت کو اُٹھانے پر وضو واجب ہونے کا حکم دیتا ہو۔” بہرحال مردہ کے جسم کو ہاتھ لگانے کے بعد غسل یا وضو واجب نہیں، صرف ہاتھ دھولینا کافی ہے۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج:4، ص:294، ط:مکتبہ لدھیانوی ) 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں