بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اوراد،وظائف،عملیات اورتعویذات کے لیے کسی سے اجازت لینا ضروری ہے؟


سوال

کیا اوراد، وظائف ،عملیات اورتعویذات کے لیے کسی  سے اجازت لینا ضروری ہے؟

جواب

کسی بھی ورد ،وظیفہ، عمل یا تعویذ کے لیے  کسی شیخ کی اجازت شرعاً لازم یا ضروری نہیں،بغیر اجازت کے بھی مذکورہ امور درست ہیں،البتہ اگر شیخ کی اجازت ہو تو مذکورہ امور میں برکت اور فیض زیادہ ہوجاتا ہے،اور جن عملیات وغیرہ میں نقصان کا خطرہ ہو اس سے حفاظت ہو جاتی ہے۔

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"سوال:کیا اوراد و ظائف ار عملیات کے لیے شیخ کی اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟جب کہ بعض لوگ تعویذات اور   دیگر عملیات  میں اجازت شیخ کو ضروری  تصور کرتے ہیں۔

جواب:اوراد ووظائف کے صرف پڑھنے میں تو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ،البتہ اگر شیخ  کی اجازت ہو تو ان میں برکت اور فیض مزید جاری ہوتا ہے۔فقط واللہ اعلم۔"

(کتا ب السلوک، ج:2، ص:252، ط: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ)

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے :

"الإجازة من الشيخ غير شرط جواز التصدي للإقراء والإفادة فمن علم من نفسه الأهلية جاز له ذلك وإن لم يجزه أحد وعلى ذلك السلف الأولون والصدر الصالح وكذلك في كل علم وفي الإقراء والإفتاء خلافا لما يتوهمه الأغبياء من اعتقاد كونها شرطا وإنما إصطلح الناس على الإجازة لأن أهلية الشخص لا يعلمها غالبا من يريد الأخذ عنه من المبتدئين ونحوهم لقصور مقامهم عن ذلك والبحث عن الأهلية قبل الأخذ شرط فجعلت الإجازة كالشهادة من الشيخ للمجاز بالأهلية."

(‌‌النوع الرابع والثلاثون: في كيفية تحمله، ج:1، ص:355، ط: الهيئة المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100726

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں