بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا الصلاۃ معراج المؤمن حدیث ہے؟


سوال

جامعہ کی ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں یہ فرمایا گیا ہے کہ الصلوة معراج المؤمن حدیث نہیں ہے اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرنا درست نہیں ، یہ کسی بزرگ کا مقولہ ہے ، جب کہ نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا مرتبہ مفتی محمد انعام الحق صاحب قاسمی مدظلہ العالی کے صفحہ نمبر 56 پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الصلوة معراج المؤمن ۔ براہِ کرم جواب عنایت فرمائیں۔ 144206200991

جواب

انتہائی تلاش کے باوجود مذکورہ روایت کسی کتاب میں سند کے ساتھ نہیں مل سکی، البتہ اس کا مضمون اورمعنٰی بالکل درست ہے، احادیثِ نبویہ  سے یہ مضمون اور معنٰی ثابت ہے، بعض جلیل القدر مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بطورِ حدیث مرفوع بھی ذکر کیا ہے،لیکن اس کی سند ذکر نہیں کی ہیں،صاحب الیواقیت الغالیہ فرماتے ہیں کہ:

"عوام کی زبانوں پر یہ مشہور ہے کہ "الصلاۃ معراج المؤمن" حدیثِ مرفوع ہے، جب کہ میں نے اس روایت کو اس کے مظان میں بہت تلاش کیا، لیکن مجھے کہیں اس کی سند نہیں ملی،  ظاہر یہی ہےکہ یہ بعض سلف کا کلام ہے۔"

لیکن دوسری جانب تفسیرِ کبیر، تفسیرِ نیسابوری اور تفسیرِ مظہری میں اس روایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کیا گیا ہے، حضرت مولانا مفتی محمد انعام الحق قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے بھی اِن محققین مفسرین پر اعتماد کرتے ہوئے، اس روایت کو رسول اللہ صلی اللہ کی طرف نسبت کرکے بیان کیا ہے۔

تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک اس روایت کی کوئی مرفوع سند نہیں مل جاتی اُس وقت اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر ہی بیان کیا جائے،یا ان مفسرین کی کتابوں کے حوالہ سے نقل کرے۔

تفسير كبير ميں ہے:

"فلهذا السبب  قال عليه السلام: «‌الصلاة ‌معراج ‌المؤمن»."

(تفسير الرازي، 226/1، ط: دار إحياء التراث العربي)

تفسیر نیسابوری میں ہے:

"فلهذا السبب  قال عليه السلام: «‌الصلاة ‌معراج ‌المؤمن»."

(تفسير النيسابوري، 114/1، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیر مظہری میں ہے:

"فإن الهداية غالبا يكون للعاكفين في المساجد والمصلين حيث قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة معراج المؤمن."

(التفسير المظهري، 539/6، ط: رشدية)

الیواقیت الغالیۃ میں ہے:

"(الصلاۃ معراج المؤمن) اشتهر علی ألسنة العوامّ أنّه حدیث مرفوع، و قد أوغلت في طلبه في مظانّه فلم أعرفه ولم أعثر له علی سند، و الظاهر أنّه من کلام بعض السلف." (2/62،66)

تفسیر آلوسی میں ہے:

"وقد ذكروا أن ‌الصلاة ‌معراج ‌المؤمن."

(التفسير الآلوسي، 361، ط: دار الكتب العلمية)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(إن أحدكم إذا قام في الصلاة)، أي: دخل فيها سواء كان في المسجد أو غيره (فإنما يناجي ربه)، أي: يخاطبه بلسان القائل كالقراءة والذكر والدعاء، وبلسان الحال كأنواع أحوال الانتقال ولذا قيل: ‌الصلاة ‌معراج ‌المؤمن."

(كتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة، 624/2، ط:  دار الفكر)

وفیہ ایضًا:

"فيه إيماء إلى أنّ الصلاة معراج المؤمن من حيث أنّها حالة حضور الرب وكمال القرب في الحالات وأنواع الانتقالات، وهو من أعظم اللذات عند عشاق الذات والصفات."

(كتاب الفضائل، باب في المعراج، 3774/9، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404102158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں