بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا امر بالمعروف کرنے کے لیے خود عمل کرنا ضروری ہے؟


سوال

اگر کوئی شخص لوگوں کے سامنے  اپنے دو رنگ رکھتا ہے، کچھ لوگوں کے سامنے اچھی باتیں بیان کرتا ہے اور عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، کبھی کچھ لوگوں کے سامنے اپنا رنگ تبدیل کر دیتا ہے،جن باتوں پر عمل کرنے کی ترغیب  کا کہتا تھا ان باتوں پر عمل خود نہیں کرتا،  کیایہ منافقانہ حرکت کہلائے گی؟

جواب

واضح رہے  نیک اور اچھے  کام کرنا اور نیک کام کی ترغیب دینا ، دو الگ الگ نیکیاں ہیں، اگر کوئی شخص خود بھی نیک کام کرتا ہو اور اس عمل کی ترغیب بھی دیتا ہو تو ایسا شخص  دونوں خوبیوں ( نیک کام کرنا اور اس کی تبلیغ)  کا جامع ہے، اور اگر کوئی شخص خود نیک کام نہ کرے لیکن اس عمل کی ترغیب دیتا ہو  تو ایسا شخص  بھی ایک خوبی ( نیک کام کی تبلیغ کرنے)  کا حامل ہے، چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ     سورۃ البقرہ میں "أتأ مرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم"کی تفسیر  میں  لکھتے ہیں کہ:

’’۔۔۔  یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ بے عمل یا فاسق کے لیے دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں ، اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہ کرے، کیوں کہ کوئی اچھا عمل الگ نیکی ہے، اور اس اچھے عمل کی تبلیغ دوسری مستقل نیکی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتاکہ دوسری نیکی بھی چھوڑ دی جائے، جیسے ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ  وہ روزہ بھی ترک کردے، بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس کے لیےیہ ضروری نہیں کہ دوسروں کو نماز پڑھنے کے لیے بھی نہ کہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ تو فرمایا کرتےتھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا  ہے تو میں اس عادت کی مذ مت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتاہوں، تاکہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے‘‘۔

( معارف القرآن، ج: ۱، ص: ۲۱۸، ۲۱۹،مکتبہ اداراۃالمعارف۔ کراچی)

اسی طرح دوسری جگہ سورۃ الصف کی آیت: "يا أيها الذين اٰمنوا لم تقولون ما لا تفعلون"  کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں:

’’اس آیت نے امر بالمعروف اور وعظ و نصیحت کرنے والوں کو اس بات پرشرمندہ کیا ہے کہ لوگوں کو ایک نیک کام کی دعوت دو اور خود اس پرعمل نہ کرو، اور مقصد یہ ہے کہ جب دوسروں کو نصیحت کرتے ہو تو خود اپنے آپ کو نصیحت کرنا اس سے مقدم ہے، جس کام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو خود بھی اس پرعمل کرو۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جب خود نہیں کرتے تو دوسرو ں کو کہنا بھی چھوڑ دو، اس سے معلوم ہوا کہ جس نیک کام کے خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے، اس کی طرف دوسروں کو بلانے اور نصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے امید ہے کہ وعظ و نصیحت کی برکت سے کسی وقت اس کو بھی عمل کی توفیق ہو جاوےـ۔‘‘

( معارف القرآن، ج:۸، ص: ۴۲۵، ط:ادارہ معارف القرآن۔ کراچی)

لہٰذا مذکورہ بالا تمہید کے پیشِ نظر صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کچھ لوگوں کے سامنے اچھے عمل کی ترغیب  دیتا ہے  اور خود عمل نہیں کرتا تو ایسے شخص کی ان حرکات کو منافقانہ تو  نہیں کہا جائے گا ، البتہ مذکورہ شخص  ترغیب دینے والی باتوں پر خود عمل نہ کرنے کی کوتاہی کا مرتکب شمار ہوگا،  لیکن اس کوتاہی کی وجہ سے اس کی حرکات کو منافقانہ بنانے کی بجائے اس کی کوتاہی کے لیے دعا گو ہونا چاہیے،  اور ساتھ  ساتھ اس شخص کی اس کوتاہی کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔

نیز نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو  متعینہ طور پر منافق کہنا  بھی جائز نہیں ہے۔

البتہ بعض لوگوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں منافق کی فلاں علامت موجود ہے، مثلاً جھوٹ بولتا، امانت میں خیانت کرنا وغیرہ یہ منافق کی علامت ہے، منافق ہونا اور منافق کی علامت پائی جانا دونوں کا حکم ایک نہیں ہے۔

"صحيح البخاري"  میں ہے:

"حدثنا خلاد: حدثنا مسعر، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الشعثاء، عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:222،ط:دار إحياءالتراث العربي)

المنهاج صحيح  مسلم كي شرح  میں ہے:

"والله أعلم قال العلماء ولا يشترط في الآمر والناهي أن يكون كامل الحال ممتثلا ما يأمر به مجتنبا ما ينهى عنه بل عليه الأمر و إن كان مخلا بما يأمر به والنهي و إن كان متلبسا بما ينهى عنه فإنه يجب عليه شيئان أن يأمر نفسه وينهاها ويأمر غيره وينهاه فإذا أخل بأحدهما كيف يباح له الإخلال بالآخر قال العلماء ولا يختص الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بأصحاب الولايات بل ذلك جائز لآحاد المسلمين."

(كتاب الإيمان،باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان،ج:2،ص:23،ط:دار احياء التراث العربي)

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وقال غيره يجب الأمر بالمعروف لمن قدر عليه ولم يخف على نفسه منه ضررا ولو كان الآمر متلبسا بالمعصية لأنه في الجملة يؤجر على الأمر بالمعروف ولا سيما إن كان مطاعا وأما إثمه الخاص به فقد يغفره الله له وقد يؤاخذه به وأما من قال لا يأمر بالمعروف إلا من ليست فيه ‌وصمة فإن أراد أنه الأولى فجيد وإلا فيستلزم سد باب الأمر إذا لم يكن هناك غيره."

(كتاب الفتن، قوله باب الفتنة التي تموج كموج البحر، ج:13، ص:53، ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں