بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عملیات کی زکاۃ کا حکم


سوال

ًعملیات کی زکوٰۃ کے بارے میں پوچھنا تھا: کیا یہ شرعاً ثابت شدہ ہے؟  کیا یہ شرعاً درست ہے؟  کیا زکوٰۃ کی نیت سے پڑھی گئی قرآنی آیت یا سورت ،درودپاک یا پھر مأثوردعا کے پڑھنے کا ثواب بھی ملے گا یا نہیں؟  اگر عملیات کی زکوٰۃ درست ہے  تو اس کا طریقہ بھی رقم فرمائیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ  دعا اور عمل کی قوت بڑھانے کے لیے ایک خاص قسم کے عمل(مثلاً ایک چلّہ (40دن) میں مخصوص مقدار میں مخصوص طریقے سے وظائف پڑھنے) کوعاملین کی اصطلاح میں عملیات کی زکاۃ کہتے ہیں، اس کی حیثیت عملیات میں اجازت کی طرح ہے، جس طرح تجربے سے ثابت ہے کہ اجازت وظیفے اور عمل  میں قوت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اسی طرح زکاۃ بھی عمل میں قوت پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے، اس کا تعلق تجربے سے ہے، شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔    تاہم دنیوی مقاصد کے لیے کیے جانے والے عملیات پر ثواب کا اعتقاد رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایسا سمجھنا بدعت ہے، یعنی ثواب کے حصول کا  مدار  نیت پر ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إنما ‌الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه."

(كتاب الإيمان، الفصل الأول، ج:1، ص:34، ط:مكتبة البشرى)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال الطيبي: وفيہ أن من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزما ولم يعمل بالرخصۃ، فقد أصاب منہ الشيطان من الإضلال، فکيف من أصر علی بدعۃ أو منکر ؟."

(باب الدعاء فی التشہد،  ج:2، ص؛755، ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون- اهـ".

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، ج:6، ص:56، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام. "

(کتاب الحظروالإباحة،فصل فی اللبس،ج:6،ص:363،ط:سعید)

وفيه أيضاً:

"لأن الجہلۃ يعتقدونہا سنۃ أو واجبۃ وکل مباح يؤدي إليہ فمکروہ ۔۔۔۔۔ (قولہ فمکروہ) الظاہر أنہا تحريميۃ لأنہ يدخل في الدين ما ليس منہ ."

( باب سجدۃ الشکر،  ج:2، ص:120، ط : سعید)

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے :

"الإجازة من الشيخ غير شرط جواز التصدي للإقراء والإفادة فمن علم من نفسه الأهلية جاز له ذلك وإن لم يجزه أحد وعلى ذلك السلف الأولون والصدر الصالح وكذلك في كل علم وفي الإقراء والإفتاء خلافا لما يتوهمه الأغبياء من اعتقاد كونها شرطا وإنما إصطلح الناس على الإجازة لأن أهلية الشخص لا يعلمها غالبا من يريد الأخذ عنه من المبتدئين ونحوهم لقصور مقامهم عن ذلك والبحث عن الأهلية قبل الأخذ شرط فجعلت الإجازة كالشهادة من الشيخ للمجاز بالأهلية."

(‌‌النوع الرابع والثلاثون: في كيفية تحمله، ج:1، ص:355، ط: الهيئة المصرية)

اشرف العملیات للتھانوی میں ہے:

’’اس عملیات میں ایک بات قابلِ لحاظ یہ کہ جو عملیات دنیا کے واسطے ہوتے ہیں وہ موجبِ ثواب نہیں ہوتے ہیں، ( یعنی ان کے کرنے میں ثواب نہیں ملتا ) ان میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے، اسی طرح ایسے عملیات کو مسجد میں بیٹھ کر نہ پڑھنا چاہیے اور نہ اس قسم کے تعویذ مسجد میں بیٹھ کر لکھنے چاہئیں۔‘‘

 ( باب دوم،  مسجد میں بیٹھ کر عملیات کرنے کا شرعی حکم، ص: 42، ط:عمران بک ڈپو دہلی)

کفایت المفتی میں ہے:

"(جواب: ۷۸) جو وظائف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نام سے منقول ہیں، ان کو اسی ثابت شدہ ترکیب و ترتیب سے پڑھنا چاہیے ، اس میں برکت اور امیدِ قبولیت ہے، اور جو وظائف حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں، ان میں اختیار ہے جس طرح چاہے پڑھے۔"

  ( کتاب السلوک والطريقۃ،  ج:2، ص:119، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144507100292

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں