بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اللہ سے مال کا سوال کر سکتے ہیں؟


سوال

کیا الله سے  مال یعنی پیسے مانگنا چاہیے یا نہیں؟ اور اگر مانگنا چاہیے تو کیا یہ تقوی کے خلاف تو نہیں؟ 

جواب

رازقِ  کائنات  سے  مال و اسباب میں فراخی کا سوال کرنا جائز ہے،  خود قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فضل کے سوال کا حکم فرمایا ہے،  اور  رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو  اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے حصول کے لیے رب العالمین سے سوال کرنے کی تعلیم دی ہے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اس  کا سوال بھی اللہ رب العزت سے کرنے کا حکم فرمایا ہے، یعنی بندہ  ہر ضرورت کے حصول کے لیے پہلے اللہ سے سوال  کرے، پھر جائز اسباب  اختیار کرے۔

نیز رحمت  للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ سے فضل مانگا کرو،  اس لیے  کہ اللہ کو   یہ بات پسند ہے کہ اس سے سوال کیا جائے،  اللہ کو اپنے بندوں میں سب سے پسندیدہ وہ بندہ ہے جو کشادگی چاہتا ہو۔

تفسير ابن كثير میں ہے:

{وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ}

عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " سلوا الله من فضله; فإن الله يحب أن يسأل وإن أفضل العبادة انتظار الفرج " .

ثم قال الترمذي : كذا رواه حماد بن واقد ، وليس بالحافظ ، ورواه أبو نعيم ، عن إسرائيل ، عن حكيم بن جبير ، عن رجل ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وحديث أبي نعيم أشبه أن يكون أصح.

وكذا رواه ابن مردويه من حديث وكيع ، عن إسرائيل . ثم رواه من حديث قيس بن الربيع ، عن حكيم بن جبير ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس قال : قال رسول الله : " سلوا الله من فضله ، فإن الله يحب أن يسأل ، وإن أحب عباده إليه الذي يحب الفرج " . ( النساء: ٣٢)

سنن الترمذي میں ہے:

"حدثنا أبو داود سليمان بن الأشعث السجزي قال: حدثنا قطن البصري قال: أخبرنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليسأل أحدكم ربه حاجته كلها حتى يسأل شسع نعله إذا انقطع»."

( ابواب الدعوات، باب، ٥ / ٥٨٣، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

شرح الطيبي على مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: ((ليسأل)) وكرره؛ لأنه يدل علي أن لا منع هناك، ولا رد للسائل عما طلب. وفيه أن العبد لا يلتجئ ولا يظهر الافتقار إلا إلي الله تعالي، ولا يستعين إلا به، ولا يتوكل إلا عليه."

( كتاب الدعوات، الفصل الثالث، ٥ / ١٧١٨، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة - الرياض)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں