بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ایک قبر کے عذاب کا اثر ساتھ والی قبروں میں پہنچتا ہے؟


سوال

گناہ گار کو قبر میں جو عذاب ہوتا ہے ،کیا اس کے برابر والوں کو بھی اس عذاب کااثر پہنچتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  بعض روایات ایسی منقول ہیں ،جس میں یہ ذکر ہے،کہ اگر کوئی مردہ نیک یا بد ہو اور اس کو قبرستان میں دفن کیا جائے تو  اس کی نیکی یا  بدی کا اثر دوسرے  ہمسایہ مُردوں تک بھی پہنچتا ہے ،چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ:

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کو نیک لوگوں کی  قبروں کے درمیان دفن کرو، اس واسطے کہ مردوں کو برے ہمسائے سے تکلیف پہنچتی ہے، جیسے زندوں کو برے ہمسایہ سے تکلیف پہنچتی ہے۔

2۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارا کوئی مر جائے تو اس کو اچھا کفن دو اور جلدی لے جاؤ، اور قبر گہری تیار کرو، ،اور برے ہمسایہ سے اس کو دور رکھو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آخرت میں بھی نیک ہمسایہ سے نفع ہوتا ہے؟ آپ نے پوچھا دنیا میں نفع ہوتا ہے، سب نے عرض کیا : ہاں ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اس طرح آخرت میں بھی ہوتا ہے۔

3۔حضرت عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی کا انتقال مدینہ میں ہوا، اور وہیں دفن کیا گیا، کسی نے اس کو خواب میں دیکھا کہ عذاب میں مبتلا ہے، پھر ساتویں یا آٹھویں روز دیکھا کہ وہ جنت میں ہے ، اس نے اس کا سبب پوچھا، اس نے جواب دیا کہ میرے بعد ایک نیک مرد یہاں دفن کیا گیا ، اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے ہمسایوں میں سے چالیس آدمیوں کی بخشش کی سفارش کی ، میں بھی اس چالیس میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی سفارش قبول فرمائی۔

4۔محمد بن صبیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مردہ قبر میں رکھا جاتا ہے اس کو عذاب ہوتا ہے، تو اس کے ہمسائے مردے پکار کر کہتے ہیں، اے شخص ! تیرے سامنے تیرے بھائی دنیا سے گزر گئے ، اور تو زندہ رہا، مگر تو نے ان کو دیکھ کر نصیحت نہ پکڑی ، اور ہم لوگ بھی تیرے سامنے دنیا سے گزر گئے ، مگر تو نے اپنا عمل درست نہیں کیا، اس کے بعد قبرستان کی زمین ہر طرف سے پکار کر کہے گی ، اے غافل ! تیرے گھر والوں کو دنیا نے تیرے سامنے دھوکہ دیا ، اور تجھ سے پہلے موت نے ان کو قبر کا راستہ دکھلایا اور تو نے دیکھا کہ لوگ ان کو اٹھا کر لے گئے ، اور قبر میں دفن کیا ، اس کے دوست آشنا سب روتے رہ گئے ، اے غافل ! تو نے ان سے نصیحت کیوں نہیں پکڑی، آج تیری آہ وزاری کچھ کام نہ آئے گی ۔

لہذامذ کورہ روایات سے اتنی بات تو ثابت ہے کہ  جس طرح نیک مردے کے دفن کرنے سے ہمسایہ مُردوں کو نفع اور راحت  پہنچتی ہے ،اسی طرح برے مُردوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے ہمسایہ مُردوں کو تکلیف بھی پہنچتی ہے ،لیکن یہ کس درجے اور کیفیت کی تکلیف ہے،چوں کہ یہ عالمِ برزخ سے متعلق ہے ،اس لیے اس کی صحیح کیفیت  کا بیان کرنا ممکن نہیں ،اجمالی ایمان کا فی ہے ۔

شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں ہے:

"وأخرج أبو نعيم، وابن مندة ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ ادفنوا موتاكم وسط قوم صالحين، فإن الميت يتأذى بجار السوء ، كما يتأذى الحى بجار السوء .۔۔واخرج ابن عساكر في تاريخ دمشق ، بسند ضعيف ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله ﷺ : ادفنوا موتاكم في وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجار السوء  .."

"وأخرج الماليني عن ابن عباس عن النبي الا الله قال : إذا مات لأحد كم ا لميت ، فأحسنوا كفته، وعجلوه بإنجا زوصيته وأعمقوا له في قبره ، وجنبوه الجار السوء ، قيل يا رسول الله !وهل ينفع  الجار الصالح في الاخرة:قال هل ينفع في الدنيا،قال: نعم، قال:كذالك ينفع في الاخرة..."

"وأخرج ابن أبي الدنيا في القبور عن عبد الله بن نافع المزني ، قال : مات رجل بالمدينة فدفن بها، فرآه رجل كأنه من أهل النار ، فاعتم لذلك ، ثم أريد بعد سابعة أو ثامنة كانه من أهل الجنة فسأله ، قال : دفن معنا رجل من الصالحين ، فشفع في أربعين من جيرانه ، فكنت فيهم ."

(شرح الصدور بشرح حال المونى والقبور ،با ب دفن العبد في الأرض التى خلق منها ،ص: 133۔۔۔ 135، ط: المكتبة التوفيقية)

وفیہ ایضاً:

"وأخرج ابن أبي الدنيا في القبور : عن محمد بن صبيح ، قال : بلغنا أن الرجل إذا وضع في قبره ، فعذب أو أصابه بعض مايكره ، ناداه جيرانه من الموت أيها المتخلف في الدنيا بعد إخوانه ، أما كان لك فينا معتبر ؟ أما كان لك فى تقديمنا إياك فكرة ؟ أمارأيت انقطاع أعمالنا هنا وأنت في المهلة ؟ فهلا استدركت مافات وتناديه بقاع القبر أيها المغتر بظهر الأرض ، هلا اعتبرت بمن غيب من أهلك في بطن الأرض، ممن عرفته الدنيا قبلك ، ثم ساق به أجله إلى القبور أو أنت تراه محمولاً - تناديه أحبته - إلى المنزل الذى لابد منه."

(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، باب مخاطبة القبر للميت ،ص :151، ط : المكتبة التوفيقية) 

"اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة" میں ہے:

"(أبو نعيم) حدثنا أحمد بن عبد الله بن محمود حدثنا محمد بن عمران بن الجنيد حدثنا أحمد بن سجيت بن محمد الهمداني حدثنا سليمان بن عيسى حدثنا مالك عن نافع بن مالك عن أبيه عن أبي هريرة قال قال رسول الله: ادفنوا موتاكم في وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجوار السوء.....لا يصح سليمان كذاب....ورواه داود بن الحصين عن إبراهيم بن الأشعث عن مروان بن معاوية الفزاري عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة قال قال رسول الله مرفوعا به.

قال ابن حبان دواد يحدث عن الثقات مما لا يشبه حديث الإثبات تجب مجانبة روايته والبلية في هذا منه.قال وهذا خبر باطل لا أصل له.

قلت له شواهد أخرج الماليني في المؤتلف والمختلف عن علي قال: أمرنا رسول الله أن ندفن موتانا وسط قوم صالحين فإن الموتى يتأذون بجار السوء كما يتأذى به الأحياء وأخرج أيضا عن ابن عباس عن النبي قال: إذا مات لأحدكم الميت فأحسنوا كفنه وعجلوا إنجاز وصيته وأعمقوا له في قبره وجنبوه جار السوء قيل يا رسول الله وهل ينفع الجار الصالح في الآخرة قال هل ينفع في الدنيا قالوا نعم قال كذلك ينفع في الآخرة.

وقال الديلمي أنبأنا والدي أنبأنا أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد الميداني الحافظ حدثنا أبو محمد الحسن بن علي الجوهري أنبأنا أبو حفص عمر ابن محمد بن علي بن يحيى الزيات حدثنا أبو محمد عامر بن سيار بحلب حدثنا عبد القدوس بن حبيب الكلاعي عن ابن طاوس عن أبيه عن أم سلمة قالت قال رسول الله: أحسنوا الكفن ولا تؤذوا موتاكم بعويل ولا تأخير وصية ولا بقطيعة وعجلوا قضاء دينه واعدلوا به عن جيران السوء.

وأخرجه أبو القاسم بن منده في كتاب الأحواء والإيمان بالسؤال والله أعلم."

(اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة ج:٦، ص:٣٦٥،  ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

" التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة،لشمس الدين القرطبي" میں ہے:

"‌‌باب يختار للميت قوم صالحون يكون معهم۔۔

اخرج أبو سعيد الماليني في كتاب المؤتلف والمختلف، وأبو بكر الخرائطي في كتاب القبور، «من حديث سفيان الثوري، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن ابن الحنفية، عن علي رضي الله عنه قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ندفن موتانا وسط قوم صالحين.فإن الموتى يتأذون بالجار السوء كما يتأذى به الأحياء» .«وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا مات لأحدكم الميت فحسنوا كفنه، وعجلوا إنجاز وصيته، وأعمقوا له في قبره وجنبوه جار السوء قيل: يا رسول الله: وهل ينفع الجار الصالح في الآخرة؟ قال: هل ينفع في الدنيا قالوا: نعم.قال: كذلك ينفع في الآخرة» .ذكره الزمخشري في كتاب ربيع الأبرار.

واخرجه أبو نعيم الحافظ بإسناده «من حديث مالك بن أنس عن عمه نافع بن مالك، عن أبيه عن أبي هريرة: قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أدفنوا موتاكم وسط قوم صالحين.فإن الميت يتأذى بالجار السوء» .

: قال علماؤنا: ويستحب لك ـ رحمك الله ـ أن تقصد بميتك قبور الصالحين.ومدافن أهل الخير.فندفنه معهم، وتنزله بإزائهم، وتسكنه في جوارهم، تبركا بهم، وتوسلاً إلى الله عز وجل بقربهم، وأن تجتنب به قبور من سواهم، ممن يخاف التأذي بمجاورته، والتألم بمشاهدة حاله حسب ما جاء في الحديث."

( التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة،لشمس الدين القرطبي (ت ٦٧١)، ص:٣١٥،  ط:دار المنهاج)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں