بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ایکسیڈ نٹ میں مرنے والا شہید ہوتا ہے؟


سوال

 میرا دوست   عمرہ کے لیے جارہا تھا، اور عمرہ کی تیاری کر رہا تھا،کچھ سامان لینے  کےلیے گھر سے نکلا اور راستے میں  ایکسڈنٹ ہوا اور وہ  وفات پاگیا، کیا  وہ  شہید  ہیں؟ حالاں کہ وہ عمرہ کو رات 8 بجے جا رہے تھے ، 5 5:4 بجے شام ان کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ وفات پاگئے۔

جواب

واضح رہے کہ  بنیادی طور پرشہید  کی دو قسمیں ہیں:حقیقی اور حکمی۔

حقیقی شہید وہ کہلاتا ہے: جس پر شہید کے دنیوی اَحکام لاگو ہوتے ہیں  کہ اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ پڑھ کر ان ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن  میں شہید ہوا ہے، مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا،  بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ موقع پر ہی دم توڑجائے۔

 حکمی شہید وہ کہلاتا ہے: جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے،  یعنی اس کو غسل دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔

اگر کسی  کا انتقال  ایکسیڈنٹ میں ہوا جائے،  تو  دنیوی اَحکام کے اعتبار سے تو  وہ ’’شہید‘‘  نہیں کہلائے گا، لیکن حکماً  یعنی آخرت کے اعتبار سے ’’شہید‘‘  کہا جاسکتا ہے،  یعنی  آخرت میں اسے ’’شہید‘‘ جیسا اجر ہی ملے گا؛لہذا صورت مسئولہ میں  مذکورہ شخص حکما ً شہید ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وكذلك لو انهزم المسلمون فوطئت دابة مسلم مسلما وصاحبها عليها أو سائق أو قائد غسل".

(كتاب الصلاة،الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل السابع في الشهيد،ج:1،ص:168،ط:رشيديه)

في الدرالمختار:

"وكل ذلك في ‌الشهيد ‌الكامل، وإلا فالمرتث شهيد الآخرة وكذا الجنب ونحوه، ومن قصد العدو فأصاب نفسه، والغريق والحريق والغريب والمهدوم عليه والمبطون والمطعون والنفساء والميت ليلة الجمعة وصاحب ذات الجنب ومن مات وهو يطلب العلم، وقد عدهم السيوطي نحو الثلاثين".

(‌‌باب الشهيد،ج:2،ص:252،ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر کوئی شخص ایکسیڈنٹ سے مرجائے۔۔۔۔۔ تو وہ شہید ہے یا نہیں؟ فقط۔

الجواب حامدا ومصلیا:        اس کو بھی شہادت کا ثواب ملے گا مگر اس کو غسل وکفن دیا جائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم"۔

( کتاب الصلاۃ، باب احکام الشہید ج:9،ص:304، ط: ادارة الفاروق كراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں