جس کا باپ غیر مسلم ہو گیا ہو یا باپ کافر ہو اور بیٹا مسلمان ہوگیا ہو تو کیا وہ بیٹا سید کہلا سکتا ہے؟
شرعی اعتبار سے "سید" کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عباس، حضرت عقیل اور حضرت حارث رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولاد میں سے ہوں؛ لہذا اگر کوئی شخص نسبی اعتبار سے سید ہو تو اس کے والد کے غیر مسلم ہونے سے اس کے سید ہونے پر اثر نہیں پڑے گا، اسے سید کہا جاسکتاہے۔
باقی سوال سے مقصود اگر ابو لہب کے بیٹوں کے بارے میں پوچھنا ہے، جن کا والد ابولہب غیرمسلم تھا اور اس کے دو بیٹے یعنی حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ/ حضرت معتب رضی اللہ عنہما فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرچکے تھے، تو ان کی اولاد کو "سید" نہیں کہا جائے گا، کیوں کہ ان کے باپ "ابولہب" نے رسول اللہ ﷺ کو اعلانِ نبوت کے بعد سے مسلسل ایذائیں پہنچائیں، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اس کی مذمت فرمائی، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی بذاتِ خود ابولہب سے قرابت ختم کردی تھی، لہذا ابولہب اگرچہ بنوہاشم میں سے تھا، لیکن اس کی اولاد "سید" نہیں کہلائے گی، اسی وجہ سے ان کے لیے زکات لینا بھی حرام نہیں ہے۔
الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب میں ہے:
"عتبة بن أبي لهب واسم أبي لهب عبد العزى بن عبد المطلب بن هاشم القرشي الهاشمي. أسلم هو وأخوه معتب يوم الفتح وكانا قد هربا فبعث العباس فيهما فأتى بهما فأسلما فسر النبي صلى الله عليه و سلم بإسلامهما ودعا لهما وشهدا معه حنينا والطائف ولم يخرجا عن مكة ولم يأتيا المدينة ولهما عقب عند أهل النسب رضي الله عنهما."
(عتبة بن ابى لهب، ص:316، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب.
(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعة وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعة انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب فإنه أعقب اثني عشر تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لاينبغي إذ لاتحرم عليهم كلهم بل على بعضهم ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضا إلى هاشم وتحل لهم الصدقة. اهـ.
وأجاب في النهر بقوله وأقول قال في النافع بعد ذكر بني هاشم إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب فإنه آثر علينا الأفجرين» وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل لعدم قرابته وهذا حسن جدا لم أر من نحا نحوه فتدبره."
(كتاب الزكوة، باب المصرف، ج:2، ص:350، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205200250
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن