بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا تبلیغ نبیوں والا کام ہے؟


سوال

  میرے گاؤں کی مسجد میں پانچ سال سے زائد عرصہ سے ایک عمل پابندی سے چلا آرہا ہے کہ عصر کی نماز کے بعد روزانہ منتخب احادیث نام کی کتاب پڑھی جاتی ہے جو کہ بہت زیادہ ضخیم بھی نہیں ہے، اسی طرح فجر کی نماز کے بعد متصلا فضائل اعمال پڑھی جاتی ہے اس کی دو جلد ہیں، اور فجر کی نماز کے متصلا 5 منٹ فضائل اعمال کی تعلیم کے بعد پھر سے ڈھائی گھنٹے کی تعلیم کے نام پر پھر منتخب حدیث کی تعلیم ہوتی جو کہ اشراق تک ہوتی ہے ( اتنے عرصہ اور اتنی بار پڑھنے کی وجہ اس قدر احادیث کا تکرار ہو جاتا ہے کہ پڑھنے والا خود شرما جائے آخر کتنی بار ایک ہی حدیث کو پڑھے، رمضان کےماہ میں بھی کتاب میں مذکور فضائل رمضان کو ہی بار بار دہرایا جاتا ہے تیسوں دن، اور اس ڈھائی گھنٹے کی تعلیم میں 8 سے10 لوگ رہتے ہیں، جن میں سے بعض بادل ناخواستہ جب کہ بعض اپنی دلچسپی سے بیٹھتے ہیں ،اب ان بیٹھنے والوں کا حال یہ ہے جو سالہا سال سے تعلیم میں بیٹھ رہےہیں، آدھا گھنٹہ فضائل اعمال سے صلہ رحمی سے متعلق تعلیم کے بعد جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ صلہ رحمی کیا ہے تو سب خاموش رہتے ہیں ، اور یہ سب اعمال اتنی پابندی سے ہوتے ہیں کہ اس کی روزانہ کارگزاری لی جاتی ہے، اور یہ سب   5 سال کا عرصہ تو میں اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر بتا رہا ہوں اور آگے نہ جانے کب تک انہیں کتابوں کا تکرار چلتا رہے ، اور یہی حال تقریباً تمام ہی مساجد کا ہے، ہاں کبھی کبھار کوئی مولوی صاحب آئے تو انہوں نے بیان کردیا ،حالا ں کہ ان کے بیان کا دائرہ بھی محدود ہی رہتا ہے، اور انہیں کتابوں کے آس پاس گردش کرتا ہے ، اور اس پابندی کا عالم یہ ہے کہ اگر کسی دن یہ عمل نہیں کرنا ہے وقت کی قلت یا کسی مشغولی کی وجہ سے تو تب بھی امور طے کر کے خانہ پوری کی جاتی ہے اور پابندی کو عمل میں لاتے ہوئے ایک دو حدیثیں ضرور پڑھی جاتی ہیں ، اور افسوس تو اس بات کا کہ یہ سب مولوی حضرات کی موجودگی میں ہوتا ہے، اور کوئی عوام کی ناراضگی اور مخالفت کی وجہ سے چوں تک نہیں کرتا،سب کو عوام کا محبوب جو رہنا ہے چا ہے مولوی بھی بیٹھ کر روزانہ وہی حدیثیں سنتےرہتے ہیں ،بلکہ اگر کبھی کسی مولوی نے ہمت کی بھی تو اس کو تبلیغی جماعت کا باغی اور مخالف گردانا جاتا ہے،اور ان اعمال کے فوائد بتاکر اسے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ چیز ایک رسم اور لازمی   درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے ، اب میں آپ مفتیان کرام سے اس معاملہ میں صرف مشورہ اور مصلحت آمیز کلمات کا طلب گار نہیں ہوں، بلکہ اس طرح سے اس عمل کے ہونے کا شرعی حکم صاف لفظوں میں جاننا چاہتا ہوں ، نیز یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ مذکورہ بالا اعمال کے ساتھ روزانہ کسی ایک نماز کے بعد دو چار گھروں پر جاکر ان سے ملاقات کرنا (ان سے دین ایمان کی بات کرکے نماز وغیرہ کی دعوت دینا ) شامل کرکے اور ہفتے میں ایک بار کسی گلی میں گشت کے عمل کو شامل کرکے اس کو نبیوں والا عمل کہنا صحیح ہے ؟ ہم نے تو اس طرز پر انبیاء کے کام کرنےکے طریقہ کو کہی  نہیں پایا  ، کیا محض کچھ خوبیوں اور فوائد کی بناء پر ہم کسی بھی کام کو انبیاء کی طرف منسوب کرکے اسے نبیوں والا کام کہہ سکتے ہیں ؟ یا واقعی یہ کام نبیوں والا ہی ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ تبلیغ دین کا کام فرض کفایہ ہے، یعنی امت کے چند  افراد اگر اس فریضہ کی ادائیگی میں مشغول ہوں، تو بقیہ تمام افراد سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا، البتہ اگر امت محمدیہ ساری کی ساری تبلیغ دین کا کام ترک کردے، تو ساری امت گناہ گار ہوگی، تاہم مروجہ تبلیغ  جماعت  سے منسلک ہونا نہ فرض ہے، اور  نہ ہی واجب ہے، البتہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق تبلیغ کا کام مفید ہے،  بہرصورت مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک نہ ہونے سے انسان گناہ گار نہ ہوگااور مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کی تربیت کے لیے بزرگوں نے جو نصاب مقرر کیا ہے، وہ ان افراد کے لیے  مفید  تر ہے،  تاہم یہ معمولات توقیفی و لازمی نہیں ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرنے پر آدمی گناہ گارقرار پائے،یعنی مذکورہ جماعت سے وابستہ افراد کے لیے  مذکورہ ترتیب پر چلنا اصلاح نفس کے لیے مفید ہوگا،  اور نہ چلنے کی صورت میں معتد بہ استفادہ نہ ہوسکے گا  ،انہی   اعمال میں   سے ایک عمل کتب فضائل سے تعلیم کرنا،اس کے بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاصاحب    ؒ فرماتے ہیں:کہ تبلیغی حضرات  کو دعوتی اور اجتماعی کام کے دوران صرف ان ہی کتب فضائل کو مطالعہ میں رکھنے پر جو زور دیا جاتاہےاس کامنشا صرف  یہ ہے کہ یہ کتابیں تبلیغی  تحریک  کے بنیادی اصول  کے موافق ہیں اور تحریک کے اصول اور مقصد کو سامنے رکھ کرلکھی گئی ہیں،بہر کیف خدانخواستہ  کتب فضائل کے نصاب  میں داخل کرنے اور اس کی ترغیب دینے سے منشایہ نہیں کہ اتنی بڑی جماعت کے ہزاروں اور لاکھوں افراد کی زندگیاں ان ہی چند کتب میں محصور کرکے رکھ دی جائیں اور بقیہ لاکھوں دینی ومذہبی کتابوں سے استغناءاور استخفاف کابیچ  ان کے دل میں      بودیا جائے،(کتب فضائل پر اشکالات اور جوابات ،36۔37)لہذا جو ترتیب بزرگوں نے رکھی  ہیں  تجربہ سے وہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق تبلیغی جماعت سے وابستہ حضرات یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ جیسے ہم لوگ بدھ کے دن گشت کرتے ہیں یا فضائلِ اعمال کی تعلیم اور دیگر معمولات کرتے ہیں بعینہ اسی طرح رسول اللہ ﷺ  کا اور   دیگر انبیاء کا بھی عمل تھا، اگر کوئی شخص اس طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ درست نہیں، اور اس کی نسبت تمام اکابر و ذمہ دارانِ تبلیغ کی طرف کرنا بھی درست نہیں ہے،البتہ ایک دوسرے کو  نیکی کا کہنا اور برائی سے منع کرنا،  مساجد میں ذکر اور دین کا علم سیکھنے اور سکھانے کے حلقہ قائم کرنا  اور امت کی ہدایت اور انہیں دعوت دینے کے لیے بازاروں میں جاکر دعوت دینا، گھروں سے نکل کر اس کی کوشش کرنا وغیرہ اعمال، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت سے ثابت ہیں، اور تبلیغ والے بھی اسی حد تک اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ اور   دیگرانبیاء علیہم السلام کی طرف کرتے ہیں۔ 

قرآن ِکریم میں ہے:

"وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ."(آل عمران)

ترجمہ:اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے ، یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔

 التفسير المنير للزحيلي میں ہے:

"يأمر الله تعالى الأمة الإسلامية بأن يكون منها جماعة متخصصة بالدعوة إلى الخير والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وأولئك الكمل هم المفلحون في الدنيا والآخرة. وتخصص هذه الفئة بما ذكر لا يمنع كون الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر واجبا على كل فرد من أفراد الأمة بحسبه، كما ثبت في صحيح مسلم عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطبع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان»۔" وفي رواية: وليس وراء ذلك الإيمان حبة خردل. وروى أحمد والترمذي وابن ماجه عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والذي نفسي بيده لتأمرن بالمعروف، ولتنهون عن المنكر، أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم، عقابا من عنده، ثم لتدعنه فلا يستجيب لكم»." 

(سورة آل عمران، الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وتأكيد النهي عن التفرق،  ٤ / ٣٣، ط: دار الفكر)

  شرح النووي على مسلم  میں ہے:

" وأما قوله صلى الله عليه وسلم فليغيره فهو أمر إيجاب بإجماع الأمة وقد تطابق على وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر الكتاب والسنة وإجماع الأمة وهو أيضًا من النصيحة التي هي الدين ... فقد أجمع المسلمون عليه ... ووجوبه بالشرع لا بالعقل ... والله أعلم ثم إن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض كفاية إذا قام به بعض الناس سقط الحرج عن الباقين وإذا تركه الجميع أثم كل من تمكن منه بلاعذر ولا خوف ثم إنه قد يتعين كما إذا كان في موضع لا يعلم به إلا هو أولا يتمكن من إزالته إلا هو وكمن يرى زوجته أو ولده أو غلامه على منكر أو تقصير في المعروف قال العلماء رضي الله عنهم ولا يسقط عن المكلف الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لكونه لا يفيد في ظنه بل يجب عليه فعله فإن الذكرى تنفع المؤمنين."

( كتاب الإيمان، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان ٢ / ٢٢، ط : دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

انبیاء علیہم السلام عموماًاور ہمارے آقائے نامدار  حضرت رسول اللہ ﷺخصوصاًمعلم بناکر بھیجے گئے اور دین سیکھنے  اور سکھلانے کی ذمہ دار سب پر ڈالی گئی ،پھر اس کے طریقے مختلف  رہے شروع میں نہ آج کل کی طرح مدارس تھے ،نہ خانقاہیں تھیں ،نہ کتابیں تصنیف کرنےکا سلسلہ تھانہ وعظ وتقریر کے جلسے ہوئے تھے ،نہ انجمنیں  بنانے کادستور تھابلکہ زبانی سیکھنے اورسکھانے کا عموماً معمول تھا،اصحاب صفٗہ  نے بھی اسی طرح سیکھا اور جہاں جہا ں آدمی بھیجے گئے ،مثلاًحضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ،حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ ابن مسعود  رضی اللہ عنہ سب اسی  طرح سکھاتے تھے...لہذا یہ کہنا بھی درست ہےکہ نبیوں والاکام ہے یعنی بغیر مدرسہ وکتاب کے زبانی دین سیکھنے اورسکھانے  کی کوشش کرنا اور اپنی زندگی کو اس کے لیے وقف کردینا طریقہ انبیاء ہے ،مگر دین سیکھنے کے جودوسرے طریق  ہیں ان کو ناجائز کہنا جائز نہیں اور اصول تبلیغ کے بھی خلاف ہے ،اس سے پورا پرہیز لازم ہے اور ہر مسلم کا اکرام اور علمی اور دینی خدمت کرنے والوں کا اکرام بھی لازم ہے۔

(باب التبلیغ ،کیا تبلیغ نبیوں والاکام ہے؟207/4،ط،الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں