1:۔ایک لڑکے مثلاً ”زید“ نے ایک لڑکی ”زینب“ کے ساتھ دودھ پیا، اب کیازید کےلیےزینب کی دوسری بہن مثلاً” فاطمہ“ کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے؟
2:۔ اسی طرح اس سے شرعی پردہ کرنا ضروری ہے؟
3:۔نیز یہ بھی کہ چند بھائی ایک گھر میں باتفاق رہتے ہوں، اور سب شادی شدہ ہوں، اور والدین کا حکم ہو کہ ہماری حیات تک جدا نہ ہونا، اور جدائی کی صورت میں ناراضی کا قوی امکان ہو، تو کیا سب بھائی ایک گھر میں رہ سکتے ہیں جب کہ ایک گھر میں بھابھی سے پردہ کرنا ذرا مشکل ہوتا ہو؟
4:۔اور یہ بھی بتایا جائے کہ چچی اور مامی سے پردہ ضروری ہے؟
1،2:۔ اگرزیدنےزینب کی والدہ کادودھ مدت رضاعت کےاندرپیاہے تو زیدکےلیے جائزنہیں کہ وہ فاطمہ سے نکاح کرے،اس صورت میں چونکہ فاطمہ زید کی رضاعی بہن ہے اس لیے اس سے پردہ بھی لازم نہیں ہے۔اوراگرزینب نےزیدکی والدہ کادودھ پیاہوتب زیدکےلیےجائز ہےکہ وہ فاطمہ سے نکاح کرے،اوراسی طرح ان کےدرمیان پردےکابھی حکم ہے۔
3:۔مشترکہ خاندانی نظام میں جب غیر محرموں کا آمنا سامنا رہتا ہو تو عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چادر سے چھپائے رکھے، مستقل چہرہ پر نقاب ڈال کر رکھنا ضروری نہیں ہے، البتہ گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگھٹ بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر غیر محرم کی نگاہ نہ پڑے، بلا ضرورت غیر محرم (دیور، جیٹھ) سے بات چیت نہ کی جائے، اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔ بے محابا اختلاط یا ہنسی مذاق کرنے کی تو اجازت ہی نہیں، کبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی بیٹھے ہوں تو خواتین ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں، تاکہ اختلاط نہ ہو۔
نیز گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔
4:۔ہر اس خاتون سے پردہ ضروری ہے، جس سے في الحال یا مستقبل میں نکاح کرنا جائز ہو، جنہیں فقہی اصطلاح میں غیر محرم کہا جاتا ہے، پس غیر محرم خواتین میں ممانی ، چچی ، چچا زاد، پھوپھی زاد ماموں زاد، بہنیں، سالی، بھابھی سب داخل ہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا۔۔۔فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته."
(كتاب الررضاع، ج:1، ص:343، ط:دارالفكر)
وفيه ايضاً:
"وتحل أخت أخيه رضاعا كما تحل نسبا مثل الأخ لأب إذا كانت له أخت من أمه يحل لأخيه من أبيه أن يتزوجها كذا في الكافي."
(كتاب الرضاع، ج:1، ص:343، ط:دار الفکر)
درمختارمیں ہے:
"(وتحل أخت أخيه رضاعا) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية وبالمضاف إليه كأن يكون لاخيه رضاعا أخت نسبا وبهما، وهو ظاهر."
(كتاب النكاح، باب الرضاع، ص:203، ط:سعید)
احسن الفتاوی میں ہے:
” عورت گھر کے نامحرم افراد سے پردہ کیسے کرے؟
سوال : چند بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں ، ہر ایک کے لئے علیحدہ مکان بنانے کی استطاعت نہیں ، ایسی صورت میں عورت پر دہ کرنے کی کیا تدبیر اختیار کرے، جبکہ اسے گھر میں مختلف کام سرانجام دینے پڑتے ہیں اور نا محرم سے بات کرنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
شرعی پردہ اللہ تعالیٰ کا قطعی حکم ہے ، اگر قلب میں کچھ فکر آخرت ہو تو اس پر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں ، اس کے لئے علیحدہ گھر ہونا ضروری نہیں ، چہرہ چھپانا اور بلا ضرورت بات کرنے سے احتراز ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ممکن ہے ، بقدر ضرورت بات کرنے کی گنجائش ہے ، اس گنجائش سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر بلا ضرورت گپ شپ لگانے یا بالکلیہ پردہ ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ، عورت گھونگھٹ کر کے گھر کے سارے کام کر سکتی ہے۔“
( مسائل شتی، ج:9، ص:37، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101940
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن