بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بنجر زمین جس نے حاکم کے اجازت سے آباد کی ان کی ہی ہوگی


سوال

 ایک شخص نے 1987 میں ایک  بنجر زمین حکومت کی  اجازت سے آباد کی، جو آبادی سے تقریباً 2 کلو میٹر دور ہے؛ اس میں کھیت اور باغات اور گھر بناۓ، لیکن 25 سال بعد یعنی 2013 میں قوم کے کچھ افراد نے یہ دعوی کیا کہ آپ نے جو آباد کاری کی ہے، اسے  قوم پر تقسیم کریں، محض آباد کاری سے یہ سب صرف آپ کا نہیں ہوسکتا، یعنی قوم میراث کا دعوی نہیں کرتی،بلکہ 25 سال بعد جب یہ زمین منافع بخش  اور زمین قیمتی ہوگئی، جب کہ 25 سال پہلے کوئی اس کو مفت میں لینے کو  بھی تیار نہیں تھا، تو کچھ افراد نے قوم کے اتفاق راۓ کے بغیر قومی تقسیم کا دعوی کردیا ہے،  اس زمین پر کس کا حق بنتا ہے؟

جواب

ایسی زمین جو شہر سے باہر ہو اور اس  کا  کوئی مالک نہ ہو  "ارض موات"   کہلاتی ہے ۔ اس قسم کی زمین کا حکم یہ ہے کہ  جو شخص  حکومت کی اجازت سےاس کو آباد کرے،  وہ اس زمین کا مالک ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں اگر  واقعۃًمذکورہ زمین آباد کرنے کی اجازت حکومت  کی طرف سے ملی ہو اور مذکورہ شخص نےحکومت کی اجازت سے مذکورہ زمین آباد بھی کر لی ہو، تو صرف وہی شخص  اس زمین کا اکیلا  مالک ہے، اور اسے اس  زمین میں مالکانہ تصرفات کا حق حاصل ہے،دیگر افراد کا اس زمین پر دعوی کرنا درست نہیں ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"قال (الموات ما لا ينتفع به من الأراضي لانقطاع الماء عنه أو لغلبة الماء عليه أو ما أشبه ذلك مما يمنع الزراعة) سمي بذلك لبطلان الانتفاع به. قال (فما كان منها عاديا لا مالك له أو كان مملوكا في الإسلام لا يعرف له مالك بعينه وهو بعيد من القرية بحيث إذا وقف إنسان من أقصى العامر فصاح لا يسمع الصوت فيه فهو موات).........

(ثم من أحياه بإذن الإمام ملكه، وإن أحياه بغير إذنه لم يملكه عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وقالا: يملكه) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من أحيا أرضا ميتة فهي له» ولأنه مال مباح سبقت يده إليه فيملكه كما في الحطب والصيد. ولأبي حنيفة - رحمه الله - قوله - عليه الصلاة والسلام - «ليس للمرء إلا ما طابت نفس إمامه به» وما روياه يحتمل أنه إذن لقوم لا نصب لشرع، ولأنه مغنوم لوصوله إلى يد المسلمين بإيجاف الخيل والركاب فليس لأحد أن يختص به بدون إذن الإمام كما في سائرالغنائم."

(کتاب احیاء الموات، ج: 10، ص:69 ، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں