بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خوف پرورش کے وجہ سے اسقاط حمل کرنے کاحکم


سوال

ہمارے چار بچے ہیں، ان کی عمریں بالترتیب 12 سال، 10 سال، 8 سال اور 5 سال ہیں، میری زوجہ اکثر و بیشتر بیمار رہتی ہے، نیز کچھ عرصہ قبل زچگی کی ایک مخصوص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر نے آگاہ کیا تھا کہ ان کے ہاں مزید اولاد نہیں ہو سکتی، مگر اب ڈیڑھ ماہ کا حمل ہے، ہمیں کوئی مالی تنگی نہیں اور نہ ہی زوجہ کو کوئی جان لیوا مرض لاحق ہے، مگر ہم بچوں کی مناسب تربیت اور پرورش نہ ہو سکنے کے خوف سے اسقاطِ حمل کروانا چاہ رہے ہیں، راہ نمائی فرمائیے۔

جواب

اگر حمل سے عورت  کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو   اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے  تو اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، اور چار ماہ پورے ہونے پر  کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا   کسی بھی وقت جائز نہیں، بلکہ بڑا گناہ ہے، اگر آپ کے چاربچے موجود  ہیں اور مزید اولاد کی وجہ سے  بچوں کی تربیت  و  پرورش  میں خوف  لاحق ہونے کا اندیشہ ہو  تویہ شرعاً عذر شمار  نہیں ہوگا ، لہٰذا سائل کی اہلیہ کے لیے  مذکورہ عذر کی وجہ سے اسقاطِ حمل  کروانا شرعاً جائز نہیں ہے ،اگر ایسا کیا تو شوہر اور بیوی دونوں  گناہ گار ہوں گے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها وقبله اختلف المشايخ فيه والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوما بالحديث اهـ قال في الخانية: ولا أقول به لضمان المحرم بيض الصيد لأنه أصل الصيد، فلاأقل من أن يلحقها إثم وهذا لو بلا عذر."

(  کتاب الحظر و الإباحة، فصل في النظر و اللمس، ج:6، ص:374، ط:سعید)

و فیہ أیضا:

"ويكره أن تسقى لإسقاط حملها ... وجاز لعذر حيث لا يتصور.

(قوله ويكره إلخ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله حيث لا يتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك."

(کتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:429، ط:سعید)

وفیہ أیضا:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولاأقول بالحل إذ المحرم لوكسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(کتاب النکاح، باب نکاح الرقیق، مطلب في إسقاط الحمل، ج:3، ص:176، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں