بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتوں کو کھانا کھلانا


سوال

میں ایک دیہات میں رہتا ہوں، وہاں بہت سے آوارہ کتے ہیں،  کیا ان کو کھانا کھلانا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کتابھی اللہ تعالی کی ایک ذی روح جاندارمخلوق ہے؛لہذا اس کو کھانا اور پانی وغیرہ دیناباعثِ اجر ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ نےحضور علیہ السلام سے نقل کیاہےکہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:ایک آدمی جارہاتھا، اس کو سخت پیاس لگی،تو وہ کنویں میں اترا،اور پانی پی کر باہر نکلا، دیکھاکہ ایک کتا ہانپ رہاہے، اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہاہے،تو اس نے کہاکہ اس کی بھی وہی حالت ہوگئی ہے جو میری ہوگئی تھی،(تو وہ کنویں میں اترا) اورموزہ کو پانی   سےبھردیا،اور پھر اسے منہ سے پکڑکرکنویں سے باہر نکلا،اور وہ پانی کتے کو پلایا،تو اللہ تعالی کواس کا یہ عمل پسند آیا، اور اللہ تعالی نے اس کی بخشش کردی،(اس واقعہ کے بعد) حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کے نبی علیہ السلام سے دریافت کیاکہ کیاہمیں جانوروں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے پربھی اجر ملے گا؟تو اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایاکہ ہرجاندار ذی روح کے ساتھ بہتر سلوک باعثِ اجر ہے۔ 

بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك، عن سمي، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (بينا رجل يمشي، فاشتد عليه العطش، فنزل بئرا فشرب منها، ثم خرج فإذا هو بكلب يلهث، يأكل الثرى من العطش، فقال: لقد بلغ هذا مثل الذي بلغ بي، فملأ خفه ثم أمسكه بفيه، ثم رقي فسقى الكلب، فشكر الله له فغفر له). قالوا: يا رسول الله، ‌وإن ‌لنا ‌في ‌البهائم ‌أجرا؟ قال: (في كل كبد رطبة أجر)."

(كتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، ٨٣٣/٢، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"ذهب الفقهاء إلى أنه يجب دفع الضرر عن الكلب غير العقور وحفظ حياته لما روى أبو هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا رجل يمشي، فاشتد عليه العطش، فنزل بئرا فشرب منها، ثم خرج، فإذا هو بكلب يلهث يأكل الثرى من العطش، فقال: لقد ‌بلغ ‌هذا ‌مثل ‌الذي ‌بلغ ‌بي، فملأ خفه، ثم أمسكه بفيه، ثم رقا، فسقى الكلب، فشكر الله له فغفر له قالوا: يا رسول الله، إن لنا في البهائم أجرا؟ قال: في كل كبد رطبة أجر (3) .

وقال جمهور الفقهاء: يجب التيمم على من معه ماء وخاف - باستعماله - مرضا، أو زيادته، أو تأخر برء، أو عطش محترم، معه أي محرم قتله، آدميا كان أو بهيميا، ومنه كلب الصيد والحراسة، أي فيجب سقيه، ولو دعاه ذلك إلى التيمم."

(حرف الكلب، ‌‌دفع الضرر عن الكلب،١٣٤/٣٥، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں