بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کتوں کی افزائش اور خریدوفروخت کا حکم


سوال

میں نے مال مویشی کی حفاظت کے لیے کتا لیا تھا، اس جوڑے نے بچے بھی دیے، جس کی وجہ سے میرے پاس بہت زیادہ کتے ہو گئے ہیں ،کیا میں ان کتوں کو فروخت کر سکتا ہوں ؟ کیا یہ پیسے حلال ہوں گے ؟ جس طرح بکروں یا دوسرے جانوروں کا فارم ہوتا ہے جہاں ان کی افزائش نسل ہوتی ہے کیا کتوں کا فارم بنانا جائز ہے ؟ اور ان کی خرید وفروخت کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ کتے سے متعلق شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ جس کتے کو پالنا جائز ہو اس کی خرید و فروخت اور اس کا فارم بنانا بھی جائز ہے اور جس کو پالنا جائز نہیں اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں، اور کتے کو پالنے کی اجازت شکار کے لیے ہے یا گھر اور کھیتی کی حفاظت کے لیے ہے؛ لہذا جو کتا مذکورہ امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے ورنہ نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌بيع ‌الكلب المعلم عندنا جائز وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلما كان أو لم يكن كذا في فتاوى قاضي خان.وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلا للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(کتاب البیوع،الباب التاسع فیما یجوز بیعہ ومالا یجوز بیعہ،ج:3،ص:114،دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال :کتے کی تجارت جائز ہے یا ناجائز ہے ؟

الجواب حامدا ومصلیا

محض  شوق کے طور پر بلا ضرورت حفاظت وشکار وغیرہ  کتا پالنا منع ہے اور بضرورت جائز ہے اور کتے کی بیع  بھی درست ہے ۔

"قوله [نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌عن ‌ثمن ‌الكلب ] وهذا التحريم كان إذا أمر بقتل الكلاب وحرم الانتفاع بها فإذا استثنى كلب الماشية والصيد وغيره جاز بيعه."(الكوكب الدري،1(337))

(باب البیع الصحیح ،ج:16،ص:31،فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں