بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رجب 1446ھ 18 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

کتے کے جوٹھے اورگائے کے پیشاب سے علاج کا حکم


سوال

ایک مریض ہے،اسے خون کا کینسر ہے،ڈاکٹروں  اور  حکیموں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا ہے،ایک بندے نے اس کا علاج یہ بتایا کہ اسے کتے کا جوٹھا پلاؤ اور گائے کے پیشاب میں ہلدی ملا کر پلادو،یہ بندہ نہ ڈاکٹر ہے اور نہ کوئی حکیم ہے،لیکن اس عمل کی وجہ سے ایک اور مریض ٹھیک ہوگیا تھا،اب پوچھنا یہ ہے کہ ہم اس مریض کو کتے کا جوٹھا اور گائے کے پیشاب میں ہلدی ملا کر دے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرناحرام ہے، البتہ اگر بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان  ماہر دین دار ڈاکٹر/حکیم یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ غالب گمان ہو جائے کہ  شفا کسی  حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے ورنہ نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں ذکرکردہ آدمی   نہ تو ڈاکٹر ہے اور نہ ہی حکیم ہے،لہذا محض اس آدمی کے کہنے اور کسی دوسرے مریض کا ان چیزوں سے ٹھیک ہوجانے کی وجہ سےکتے کے جوٹھے اور گائے کے پیشاب سے  مذکورہ مریض کا علاج کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"يجوز للعليل شرب البول والدم وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه." 

(كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ج:5، ص:355، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الاستشفاء بالمحرم إنما لاتجوز إذا لم يعلم فيه شفاء، أما إذا علم أن فيه شفاء وليس له دواء أخر غير يجوز الاستشفاء به."

(كتاب الكراهية، الفصل التداوي والمعالجات، ج:18، ص:200، ط:زکریا دیوبند)

فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

مطلب في التداوي بالمحرم (قوله اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل."

(کتاب الطھارۃ، باب المیاہ، ج:1، ص:210، ط:سعید)

وفیه ایضا:

"مطلب في التداوي بالمحرم (قوله ورده في البدائع إلخ) قدمنا في البيع الفاسد عند قوله ولبن امرأة أن صاحب الخانية والنهاية اختارا جوازه إن علم أن فيه شفاء ولم يجد دواء غيره قال في النهاية: وفي التهذيب يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي ‌إذا ‌أخبره ‌طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه"

(كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابھا، ج: 5، ص:228، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں