بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتے اور بلی پالنے کا حکم


سوال

کتے پالنا کیسا ہے؟  اگر کوئی شخص شوق میں کتے اور بلی پالنا چاہے تو کیا پال سکتا ہے؟  اور اگر کسی دوست نے پالا ہو تو  اس کتے کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟ اور اگر ہاتھ لگا لیا تو اب کیا حکم ہے اس پر؟ 

جواب

1- احادیث میں ضرورت کے بغیر کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے؛ لہذا شرعی ضرورت کے بغیر کتوں کو گھر میں رکھنا    خیر  و برکت اور اجر و ثواب سے محرومی کا باعث اور گناہ ہے، انہیں پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔  البتہ  اگر کتے کو  جانوروں  اور  کھیتی کی حفاظت کے لیے   یا  شکار کے لیے  پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔

اگر کسی شخص نے کتے کے جسم پر  ہاتھ  لگا لیا اور اس کے جسم پر  کوئی ظاہری نجاست (مثلاً: کتے کا لعاب یا کوئی اور نجاست) نہ لگی ہو تو اس سے ہاتھ  ناپاک نہیں ہو گا، ہاتھ پاک ہی رہے گا۔

2- بلی پالنا جائز ہے، اس میں شرعاً  کوئی حرج نہیں۔

الفتاوى الهندية (5/ 361):

"وفي الأجناس: لا ينبغي أن يتخذ كلباً إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں