کتے کا شاہجہان نام رکھنا اور ایسے ناموں سے پکارنا جو انسانی نام سے مشابہت رکھتے ہوں، کیا جائز ہے؟
واضح رہے کہ "شاہ جہاں" کا مطلب ہےدنیا کا بادشاہ، اس لفظ کو کسی انسان کے لیے بھی نام کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں ہے، چہ جائکہ کتے کے لیے یہ لفظ بطورِنام استعمال کیاجائے، بلکہ کتے کے لیے استعمال کرنے میں زیادہ کراہت ہے؛کیونکہ کتا شرعاً محبت کی چیز ہی نہیں ہے ، حفاظت اور شکار کی غرض کے علاوہ اس کا پالنا ہی ناجائز ہے، احادیث مبارکہ میں ہے کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے وہاں فرشتہ داخل نہیں ہوتے، لہذا کتے کا نام شاہ جہاں، یا اس کے علاوہ انسانوں کے ناموں میں سے کوئی نام رکھنا شرعا ًجائز نہیں ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ولا يدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب» " رواه أبو داود والنسائي."
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الطہارۃ، باب مخالطۃ الجنب و ما یباح لہ،ج:۲،ص:۴۴۰، دار الفکر)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ومن اقتنى كلبا إلا كلب ماشية أو ضار، نقص من عمله كل يوم قيراطان» ". متفق عليه.
(قيراطان) ..... وذلك؛ لأنه اقتنى النجاسة مع وجوب التجنب عنها من غير ضرورة وحاجة، وجعلها وسيلة لرد السائل والضعيف. قال النووي: واختلفوا في سبب نقصان الأجر باقتناء الكلب، فقيل: لامتناع الملائكة من دخول بيته، وقيل: لما يلحق المارين من الأذى من ترويع الكلب لهم وقصده إياهم، وقيل: إن ذلك عقوبة لهم لاتخاذهم ما نهي عن اتخاذه وعصيانهم في ذلك. وقيل: لما يبتلى به من ولوغه في الأواني عند غفلة صاحبه ولا يغسله بالماء والتراب."
(کتاب الصید و الذبائح، باب ذکر الکلب، ج:۷،ص:۲۶۶۰، دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"[فرع] لا ينبغي اتخاذ كلب إلا لخوف لص أو غيره فلا بأس به ومثله سائر السباع عيني وجاز اقتناؤه لصيد وحراسة ماشية وزرع إجماعا»
(قوله لا ينبغي اتخاذ كلب إلخ) الأحسن عبارة الفتح، وأما اقتناؤه للصيد وحراسة الماشية والبيوت والزرع، فيجوز بالإجماع لكن لا ينبغي أن يتخذه في داره إلا إن خاف لصوصا أو أعداء للحديث الصحيح «من اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان» "
(کتاب البیوع، باب المتفرقات، ج:۵،ص:۲۲۷،ایچ ایم سعید)
زاد المعاد میں ہے:
"وأغضبَه له اسمُ «شاهان شاه» أي: ملك الملوك وسلطان السَّلاطين، فإنَّ ذلك ليس لأحدٍ غير الله، فتسمية غيره بهذا من أبطل الباطل، والله لا يحبُّ الباطل."
(فصول فی ہدیہ فی العبادات،فصل فی فقہ ہذا الباب،ج:۲،ص:۴۰۷،دار عطاءات العلم)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102553
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن