بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی پر نماز پڑھنے والے معذور کا غلط تلاوت کرنے والے تندرست لوگوں کی امامت کرانے کا حکم


سوال

 پاؤں سے معذور شخص نے کرسی پر بیٹھ کر جسمانی اعتبار سے تندرست و صحیح، سالم لوگوں کی امامت کی ہے، یعنی وہ امام  خاص طور پر رکوع و سجود پر قدرت نہیں رکھتاہے ،  مذکورہ معذور شخص کو امام بنانے کی وجہ یہ رہی کہ اس وقت مسجد میں حاضرین میں سے کوئی بھی امامت پر قدرت نہیں رکھتا تھا،  اور بعض  تو قرآن کریم کو مجہول انداز میں پڑھنے والے تھے،  جو حروف کو صحیح مخارج اور صحیح انداز سے ادا نہیں کر پاتے ہیں،  جس  کی وجہ سے ترجمہ میں تبدیلی اور لحن جلی ہوجاتی ہے،  جب کہ مذکورہ امام صاحب احسن انداز سے قرأت پر قدرت اور ضروری مسائل نماز سے بھی واقفیت رکھتا ہے،  آیا  مذکورہ صورتِ حال میں اس معذور امام صاحب کی اقتداء میں جسمانی اعتبار سے صحیح سالم لوگوں کی نماز ادا ہوگئی یا نہیں  ؟ اور اسی طرح کوئی مذکورہ صفات سے متصف ہو تو ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو آدمی رکوع وسجود پر قادر نہیں ہے وہ رکوع وسجود پر قدرت رکھنے والے لوگوں کی امامت نہیں کراسکتا ؛ کیوں کہ اس کی حالت مقتدیوں سے کمزور ہے، البتہ ایسا معذور آدمی اپنے جیسے معذور آدمیوں کی امامت کراسکتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معذور آدمی کی اقتداء میں جتنے تندرست لوگوں نے نماز ادا کی ، ان کی نماز نہیں ہوئی ، ان پر اس نماز کا اعادہ ضروری ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويجوز اقتداء المعذور بالمعذور إن اتحد عذرهما، وإن اختلف فلايجوز، كذا في التبيين. فلايجوز أن يصلي من به انفلات ريح خلف من به سلس البول، كذا في البحر الرائق".

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:84، ط:دار الفکر)

وفيه أيضاً:

"ويصح اقتداء القائم بالقاعد الذي يركع ويسجد لا اقتداء الراكع والساجد بالمومئ".

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:85، ط:دار الفکر)

وفيه أيضاً:

"وإمامة الأمي قومًا أميين جائزة، كذا في السراجية".

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:85، ط:دار الفکر)

وفيه أيضاً:

"ولايصح اقتداء القارئ بالأمي."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:86، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں