بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی پر بیٹھے بزرگ کے قریب زمین پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنا


سوال

آجکل مساجد میں کرسیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بزرگ حضرات نماز پڑھنے مساجد کی طرف آرہے ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جوان یا نوجوان حضرات کے ایک مسئلہ بہت زیادہ بڑھ رہا ہے وہ یہ کہ اگر کوئی شخص رہیل لے کر قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لئے بیٹھتا ہے تو فوراً ہی کرسی پر بیٹھے بزرگ اسے ٹوک کر کرسی کے اوپر بیٹھ کر پڑھنے کا بولتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ

1۔ کیا نعوذباللہ قرآن کی حیثیت اتنی کم ہے کہ اوپر یا نیچے بیٹھ کر پڑھنے سے کم یا زیادہ ہوتی ہے جبکہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اکثر لوگ کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ نیچے بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کررہے ہوتے ہیں ۔

2۔ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں ۔

3۔ اگر بزرگ حضرات کی بات صحیح ہے تو یہ فرمائیں کہ کتنا فاصلہ پر یا کسی اور طرف منہ کرکے نیچے بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کر سکتے ہیں جبکہ کوئی کرسی پر بیٹھا ہو ؟

جواب

1۔ واضح ہو کہ قرآن پاک اوپر بیٹھ کر پڑھنے یا نیچے بیٹھ کر پڑھنے سے قرآن کی حیثیت میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی اس لیے کہ قرآن پاک تو اللہ کا کلام ہے اور اس کی شان بلند و بالا ہے؛ بلکہ اس کا تعلق مسلمان کے دل میں قرآن کی تعظیم اور اس کے ادب سے ہے جس کی وضاحت شق نمبر 2 میں مذکور ہے۔

2، 3۔ اگر ایک شخص پہلے سے زمین پر بیٹھ کر  (مصحفِ قرآن کریم لے کر)تلاوت کر رہا ہو ، تو دوسرے شخص کو اس کے قریب کرسی پر نہیں بیٹھنا  چاہیے، کیوں کہ بالکل ساتھ  ساتھ بیٹھنے کی صورت میں زمین پر بیٹھ کر قرآن پڑھنے والے کا  مصحف  (قرآنِ مجید کا نسخہ) کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کے پیروں کے برابر ہوجائے گا اور  اس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہے، یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جہاں قرآن کریم یا دیگر دینی کتابیں  نیچے رکھی ہوں اور کرسی کی بیٹھنے کی جگہ ان سے اوپر ہو، وہاں  بھی ان قرآنی مصحف اور کتابوں کے قریب کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔البتہ دور ہو کر کرسی پر بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں،باقی کرسی پر بیٹھنے والا کتنی دور ہو تو اس کے  لیے اوپر بیٹھنا جائز ہو گا، اس کی شریعت میں کوئی تحدید نہیں ہے، حالات اور مکان کو دیکھ کر خود اس بات کا فیصلہ کر لینا  چاہیے،  مثلاً گھر میں اگر ایک کمرہ میں کوئی شخص زمین پر بیٹھ کر قرآن مجید ہاتھ میں لے کر  تلاوت کر رہا ہو تو اسی کمرے میں کسی دوسرے شخص کو  بلا عذر کرسی پر نہ بیٹھنا  چاہیے،  ہاں! اگر کوئی بڑا ہال ہو  مثلاً  مسجد کا ہال یا گھر کا بڑا صحن تو ایسی صورت میں اگر ایک کنارہ پر کوئی زمین پر بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہو تو دوسری طرف کرسی پر بیٹھنا بے ادبی شمار نہ ہو گا۔ یا کم از کم کرسی سے ایک یا دو صف کے فاصلہ سے بیٹھ کر تلاوت کرے، بالکل قریب ہوکر نیچے بیٹھ کر تلاوت نہ کرے۔

باقی مسجد میں بلا عذر کرسی پر بیٹھنا یا اس پر بیٹھ کر تلاوت وغیرہ کرنا آداب کے خلاف ہے۔ ہاں جس شخص کو  عذر ہو تو اس کیلئے  ایسی صورت میں  کرسی پر بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" و(كما كره (مد رجليه في نوم أو غيره إليها) أي عمدا لأنه إساءة أدب قاله منلا ناكير (أو إلى مصحف أو شيء من الكتب الشرعية إلا أن يكون على موضع مرتفع عنالمحاذاة) فلايكره، قاله الكمال  

(قوله أي عمدا) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط.

(قوله لأنه إساءة أدب) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط، لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته. قال: وهذا يقتضي التحريم فليحرر (قوله إلا أن يكون) ما ذكر من المصحف والكتب؛(قوله: مرتفع) ظاهره ولو كان الارتفاع قليلاً ط قلت: أي بما تنتفي به المحاذاة عرفاً، ويختلف ذلك في القرب والبعد، فإنه في البعد لاتنتفي بالارتفاع القليل والظاهر أنه مع البعد الكثير لا كراهة مطلقاً، تأمل".

(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة، وما ويكره فيها، فروع اشتمال الصلاة على الصماء،1 / 655، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں