بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ


سوال

 میں اپنی پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھتا ہوں ،میرے ایک عزیز ہیں جو عمر میں تقریباً  15 سال بڑے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں نے اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب میں پڑھا ہے کہ نماز میں قیام فرض ہے اور بغیر قیام کے نماز نہیں ہوتی ،اس لیے وہ ہر رکعت کی شروع میں تھوڑی دیر کھڑے ہوتے ہیں اور پھر بیٹھ کر کرسی پر سجدہ ،آخری قعدہ اور سلام پھیرتے ہیں ،نمازمیں تو 14 فرائض ہو تے ہیں جو دو حصوں پر مشتمل ہے،ایک حصہ شرائط  کا ہے اور ایک حصہ ارکان کاہے ،اب جب کہ سجدہ اورآخری قعدہ کرنا بھی فرائض میں سے ہے تو کیا صرف اس وجہ سے کہ نماز  یں قیام نہیں کیا  تو  نماز نہیں ہو گی؟اور  یہ کہ کرسی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟  کیا سجدہ کے وقت ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنا ہو تا ہے یا لٹکانا ہو تا ہے؟

جواب

صحت اور تندرستی کی حالت میں  فرض نمازوں میں قیام فرض ہے،البتہ بیماری کی وجہ سےاگر زمین پرسجدہ پر قدرت نہ ہو تو اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے، کیوں کہ نماز میں اصل سجدہ ہےاور قیام وغیرہ اس کے لیےوسیلہ ہیں ،اور اصل کے ساقط ہونے کی صورت میں وسیلہ بھی ساقط ہوجاتا ہے ،لہذا اس صورت میں افضل یہ ہے کہ پوری نماززمین یاکرسی پربیٹھ کر پڑھی جائے،البتہ اگر کوئی شخص  شروع میں بقدر استطاعت  کھڑا ہو تا ہےتو اس سے بھی نماز ہو جاتی ہے،لیکن  افضل یہ ہے کہ پوری نماز بیٹھ کر پڑھی جائےاور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں ہاتھوں کو گھٹنوں  پر رکھ کر  سجدہ کرنا  ہوتا ہے،البتہ رکوع کی بنسبت سجدہ میں زیادہ جھکنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومنها القيام) ۔۔۔۔(في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه) وعلى السجود، فلو قدر عليه دون السجود ندب إيماؤه قاعدا.

(قوله ندب إيماؤه قاعدا) أي لقربه من السجود، وجاز إيماؤه قائما كما في البحر.

ولنا أن القيام وسيلة إلى السجود للخرور، والسجود أصل لأنه شرع عبادة بلا قيام كسجدة التلاوة والقيام لم يشرع عبادة وحده، حتى لو سجد لغير الله تعالى يكفر بخلاف القيام. وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسيلة كالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة. "

(کتاب الصلاۃ؛باب صفۃ الصلاۃ،ج:1،ص:145،145،ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"وأما ما ذكره من افتراض القيام فلم أره لغيره فيما عندي من كتب المذهب بل كلهم متفقون على التعليل بأن القيام سقط لأنه وسيلة إلى السجود بل صرح في الحلية بأن هذه المسألة من المسائل التي سقط فيها وجوب القيام مع انتفاء العجز الحقيقي والحكمي. 

(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوما.

(قوله أومأ) حقيقة الإيماء طأطأة الرأس، وروي مجرد تحريكها، وتمامه في الإمداد عن البحر والمقدسي."

(کتاب الصلاۃ؛باب قضاء الفوائت،باب صلاۃ المریض،ج:2،ص:98،97،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں