بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی کے پائیوں کی درمیانی خلا سترہ نہیں بن سکتی ہے


سوال

1)نمازی کے سامنے سے گزرنے کے لیے مشغولِ نماز نمازی کے آگے کرسی یا کوئی ایسی چیز بطور آڑ کے رکھ کے گزرنے سے سترہ کا حکم  کیاپورا ہو جائے گا؟

2)مزید یہ کہ کرسی بطور سترہ کافی ہو جائے گی جب کہ نمازی کے سامنے کرسی کا پایا نہ ہو بلکہ پایوں کا درمیانی خلا نمازی کے سامنے ہو؟

جواب

1)واضح رہےکہ نمازی کے سامنے سترہ ہو تو اس کے آگے سے گزرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے اور سترہ کا مطلب یہ ہے کہ مصلی(مشغولِ نماز نمازی )کےسامنے ایک ذراع لمبی (یعنی ہاتھ کی موٹی انگلی کے سرے سے لے کر کہنی تک کے بقدر لمبی) اور بقدرِ ایک چھوٹی انگشت موٹی کوئی بھی چیز موجود ہو،خواہ وہ خود رکھے یا اور کوئی رکھ دے۔

اورکرسی وغیرہ  كا پاياچوں کہ عموماً ایک گزشرعی کےبرابر اونچی اورکم ازکم ایک انگلی کے برابر موٹا بھی ہوتاہے،لہذا نمازی کے سامنے سے گزرنے کے لیے مشغولِ نماز نمازی کے سامنے کرسی کے پائے  یا کوئی ایسی چیز بطورِ آڑ کے رکھ کے گزرنے سے سترہ کا حکم پورا ہو جائے گا۔

2)اور اگر مصلی کے  چہرے کےسامنے کرسی کا پایہ نہ ہو،بلکہ درمیانی خلا ہو تو چوں کہ نمازی کے چہرے کے سامنے کوئی آڑ وغیرہ نہیں ہے،اس لیے نمازی کے چہرے کے سامنے کرسی کے پائیوں کی درمیانی خلا کے ہوتے ہوئے کرسی سترہ شمار نہیں ہوگی،اور نہ  ہی کرسی کے پائے (جس کے سامنے نمازی کے چہرے کا رخ نہیں ہے)سترہ کے لیے کافی ہوں گے۔

1)فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويغرز) ندبا بدائع (الإمام) وكذا المنفرد (في الصحراء) ونحوها (سترة بقدر ذراع) طولا (وغلظ أصبع).

(قوله بقدر ذراع) بيان لأقلها ط. والظاهر أن المراد به ذراع اليد كما صرح به الشافعية، وهو شبران."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:1، ص:636، ط:سعيد)

2) وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

"‌‌فصل في اتخاذ السترة ودفع المار بين يدي المصلى إذا ظن"

أي مريد الصلاة "مروره" أي المار "يستحب له" أي مريد الصلاة "أن يغرز سترة" لما روينا ولقوله صلى الله عليه وسلم "ليستتر أحدكم ولو بسهم" "وأن تكون طول ذراع فصاعدا" لأنه سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن سترة المصلى فقال: مثل مؤخرة الرحل بضم الميم وهمزة ساكنة وكسر الخاء المعجمة العود الذي في آخر الرحل يحاذي رأس الراكب على البعير وتشديد الخاءخطا وفسرت بأنها ذراع فما فوقه "في غلظ الأصبع" وذلك أدناه لأن ما دونه لا يظهر للناظر فلا يحصل المقصود منها "والسنة أن يقرب منها" لقول النبي صلى الله عليه وسلم "إذا صلى أحدكم إلى سترة فليدن منها لئلا يقطع الشيطان عليه صلاته" "ويجعلها على" جهة "أحد حاجبيه ولا يصمد إليها صمدا" لما روي عن المقداد رضي الله عنه أنه قال: "ما رأيت رسول الله يصلي إلى عمود ولا شجرة إلا جعله على جانبه الأيمن أو الأيسر" ولا يصمد صمدا أي لا يقابله مستويا مستقيما بل كان يميل عنه."

(كتاب الصلاة، فصل في اتخاذ السترة ودفع المار بين يدي المصلى إذا ظن،ص:366،ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

العنايۃ شرح الہدايۃ  ميں ہے:

"ثم الكلام في هذه المسألة في مواضع: أولها هذا.........والسادس أن يقرب من السترة لقوله عليه الصلاة والسلام «من صلى إلى سترة فليدن منها» والسابع أن يجعل السترة على حاجبه الأيمن أو الأيسر؛ لأن الأثر ورد به، روي «أنه صلى الله عليه وسلم ما صلى إلى شجرة ولا إلى عود ولا إلى عمود إلا جعله على حاجبه الأيمن ولم يصمده صمدا أي لم يقصده قصدا إلى المواجهة......والتاسع أن المعتبر هو الغرز دون الإلقاء والخط. قيل هذا إذا كانت الأرض رخوة، أما إذا كانت صلبة لا يمكنه الغرز فإنه يضعها طولا لتكون على هيئة الغرز."

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها، 1/ 405/ 408، ط: دار الفكر، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں