بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا کی وبا سے محفوظ ہونے پر بکرا ذبح کرنے کی منت ماننا


سوال

کرونا کی وبا میں اگر والدہ نے اولاد کی خیریت اور رشتہ داروں کی خیریت کے پیشِ  نظر صدقہ کرنے کی نیت کی ہو، مثلاکہ ’’اے اللہ تو کرونا جیسی وبا سے میرے آل و عیال اور رشتہ داروں کی جان کی حفاظت فرما تو میں صدقہ میں بکرا ذبح کروں گی ‘‘ تو یہ صدقہ نفل ہو گا یا واجب؟ اور اس کا گوشت سادات بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل کی والدہ   نے صرف دل میں نیت  کی تھی کہ ’’اے اللہ تو کرونا جیسی وبا سے میرے آل و عیال اور رشتہ داروں کی جان کی حفاظت فرما تو میں صدقہ میں بکرا ذبح کروں گی ‘‘  ،زبان سے کچھ نہیں کہا تھا تو  محض اس نیت سے  نذر منعقد نہیں ہوئی تھی ،لہٰذمحض ا س نیت کی وجہ سے  صدقہ کا بکرا ذبح کرنا  شرعًا  واجب نہیں ہے ،البتہ اللہ پاک کی نعمت کے شکرانے میں بطور نفلی صدقہ  کے بکرا ذبح کرسکتی ہیں اور اس کا گوشت سادات کو بھی دے سکتی ہیں ۔

لیکن اگر سائل کی والدہ  نے دل کے ارادے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کہا تھا  کہ’’ اے اللہ تو کرونا جیسی وبا سے میرے آل و عیال اور رشتہ داروں کی جان کی حفاظت فرما تو میں صدقہ میں بکرا ذبح کروں گی ‘‘،تو اس صورت میں  نذر منعقد ہوگئی تھی،  اور کرونا کی وبا سے آل و عیال کے محفوظ   ہونے پرصدقہ  کا بکرا ذبح کرنا واجب ہو گا اور اس بکرے کا گوشت ایسے فقراء کو دینا واجب ہوگا جو زکاۃ کے مستحق ہوں ،  سادات کو اس کا گوشت دینا  جائز نہیں ہوگا ؛اس لیے کہسید کو زکاۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لاتحلّ لمحمد، ولا لآل محمد."

(صحيح مسلم 2/ 754) 

ترجمہ :یہ صدقات  (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔ 

البحر الرائق میں ہے:

(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة»265) 2/۔ط:رشيدية(

مبسوط سرخسی میں ہے:

 "وكذلك لو صرفها إلى هاشمي أو مولى هاشمي وهو يعلم بحاله لا يجوز لقوله صلى الله عليه وسلم: "لا تحل الصدقة لمحمد ولا لآل محمد". وعن بن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم استعمل الأرقم بن أبي الأرقم على الصدقات فاستتبع أبا رافع فجاء معه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "يا أبا رافع إن الله تعالى كره لبني هاشم غسالة الناس وإن مولى القوم من أنفسهم"، وهذا في الواجبات فأما في التطوعات والأوقاف فيجوز الصرف إليهم وذلك مروي عن أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى في النوادر لأن في الواجب المؤدى يطهر نفسه بإسقاط الفرض فيتدنس المؤدى بمنزلة الماء المستعمل.وفي النفل يتبرع بما ليس عليه فلا يتدنس به المؤدى كمن تبرد بالماء. 3 / 21)ط:دار المعرفة(

فتاوی شامی میں ہے :

(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) ".(رد المحتار3/ 735ط:سعيد (

البحرالرائق میں ہے:

وركنها اللفظ المستعمل فيها، وشرطها العقل والبلوغ.(300/ 4 ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں