بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کنویں کے قریب بیت الخلاء کے لیے گڑھا کھودنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا


سوال

ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے  جس کے صحن میں پانی کا چشمہ نکل رہا ہے ،  اس علاقے میں آس پاس دوسری جگہوں میں کھدائی کرنے سے چشمے  نکلتے ہیں ،  مذکورہ مسجد سے تقریبا پچاس فٹ کے فاصلے پر ایک شخص کا گھر ہے ،  وہ اپنے گھر  کے صحن  میں بیت الخلاء کے لئے گڑھا کھود رہا  ہے ، جس میں بیت الخلاء کا استعمال شدہ  پانی جمع ہو گا (جوکہ دیہات میں رواج ہے)اب   مسجد انتظامیہ کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے مسجد میں موجود چشمے کا پانی ناپاک نہ ہوجائے۔

 دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت کے پیش نظر بیت الخلاء کے گڑھے کی وجہ سے مسجد میں موجود چشمے کے پانی پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں ؟ نیز  مسجد انتظامیہ اس شخص کو اپنے گھر کے صحن میں  گڑھا کھودنے سے روک سکتی ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ قریب کے کنویں کے ناپاک پانی کا اثر اگر پاک پانی کے کنویں میں نہ آئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اور اثر یہ ہے کہ پاک پانی کے کنویں میں  ناپاک کنویں کے پانی  کا رنگ ، ذائقہ اور بو نہ آئے ، اور  پچاس فٹ کا فاصلہ عام طور پر بہت ہے ؛لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد سے پچاس فٹ کے فاصلے پر بیت الخلا کے لیے گڑھا کھودنے سے  مسجد کے چشمے کا پانی ناپاک نہیں ہوگا اور   نہ ہی  مسجد  کمیٹی  اس شخص کو اپنے گھر میں بیت الخلا کے لیے گڑھا کھودنے سے منع کر سکتی ہے ۔

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :

"(سوال)  دیہہ  ہذا کے وسط میں ایک کنواں  ہے ،  مگر مستعمل نہیں اور ناپاک ہے ، اس کے متصل چند گز کے فاصلہ پر مسجد کے احاطہ  میں ایک جدید کنواں  تعمیر ہوا ہے ، تو اول کنویں  کی ناپاکی کا اثر دوسرے کنویں میں اثر کرے گا یا نہیں ؟

( جواب) مسجد کے کنویں کا پانی بوجہ قریب ہونے دوسرے کنویں  نا پاک کے ناپاک نہ ہوگا ؛ کیوں کہ  باتفاق یہ ثابت ہے کہ ایک کنویں  کا پانی ناپاک ہوجانے سے دوسرے کنویں کا پانی ناپاک نہیں ہوتا اور اس میں کوئی تحدید نہیں کی گئی اور جو کچھ بحث کی گئی ہے وہ  کنویں کے پاس چوبچہ بنانے میں کی گئی ہے نہ کنویں میں ۔"

(کتاب الطہارات : 1 / 172 ، ط :دار الاشاعت کراچی)

«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» میں ہے :

"بئر الماء إذا كانت بقرب البئر النجسة فهي طاهرة ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه. كذا في الظهيرية ولا يقدر هذا بالذرعان حتى إذا كان بينهما عشرة أذرع وكان يوجد في البئر أثر البالوعة فماء البئر نجس وإن كان بينهما ذراع واحد ولا يوجد أثر البالوعة فماء البئر طاهر. كذا في المحيط وهو الصحيح. هكذا في محيط السرخسي۔"

(کتاب الطہارۃ ، الباب الثالث فی المیاہ ، الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ :1 / 20 ، ط : رشیدیہ)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے :

"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل:6/264،ط:دار الكتب العلمية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں